بار بار خیال آتا کہ والد محترم کا بوجھ کیسے ہلکا کیا جائے۔ایک دن اخبار میں اشتہار پڑھا کہ لاہور بھاٹی گیٹ کے قریب ”ست گھرا“مسجد میں حفاظ قرآن کو فن تجوید پڑھایا جائے گا اور دوران تعلیم طلبا کو وظیفہ بھی دیا جائے گا۔ تکمیل کے بعد انھیں سکولوں میں قرآن مجید اور فن تجوید پڑھانے کے لیے متعین کیا جائے گا۔ حافظ صاحب نے وہاں خط لکھا تو جواب آیا کہ آپ کو داخلے کی اطلاع دی جائے گی، اطلاع سے پہلے نہ آئیں۔لیکن انھوں نے بستر اٹھایا اور لاہور کو روانہ ہو گئے۔ شام کے وقت وہاں کے ناظم قاری صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ ناظم صاحب نے پوچھا کہ آپ کے پاس داخلے کا اطلاعی خط ہے؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا تو ناظم صاحب نے نہ صرف داخلے سے انکار کر دیا بلکہ انھیں اجنبی اور غیر متعارف ہونے کی وجہ سے وہاں رات گزارنے کی بھی اجازت نہ دی۔ البتہ یہ مشورہ دیا کہ شیراں والا گیٹ میں ایک دینی جلسہ ہو رہا ہے، وہاں چلے جائیے اور رات گزار ئیے۔ اب حافظ عبدالستار حماد نے رات وہاں گزاری اور دوسرے دن لسوڑے والی مسجد اہل حدیث میں پہنچے جو جلسہ گاہ سے بالکل قریب تھی۔وہاں سے ملتان آئے اور مدرسہ رحمانیہ میں ٹھہرے۔ وہیں خانیوال سےآنے والے چند حضرات سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ انھیں تحفیظ القرآن کے لیے مدرس کی ضرورت ہے۔ اس طرح خانیوال کی جامع مسجد اہل حدیث میں بطور مدرس ان کی تقرری عمل میں آئی اور 90روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔اگلے سال(1973ءمیں) ملتان آئے۔ وہ دراصل مساجد و مدارس کے اصحاب انتظام کے روپے سے تنگ آکر فاضل فارسی کا امتحان پاس کر کے سر کاری سکول میں ملازمت کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ملتان میں یہ امتحان دیا اورکامیاب ہوئے۔ 1974ءمیں اوٹی کرنے کے لیے بہاولپور کے ٹیچر ٹریننگ کالج میں داخلہ لیا۔اسی اثنا میں مرزائیوں کے خلاف اتنی زبردست تحریک چلی کہ سکول کالج بند ہو گئے۔ مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے اسباب اب حافظ عبدالستار حماد کا قافلہ حیات ایسی راہ پر گامزن ہوتا ہے جو کچھ عرصےکے بعد اللہ کی مہربانی سے انھیں مدینہ یونیورسٹی میں پہنچا دیتی ہے۔ چند الفاظ میں اس کی تفصیل یہ ہے۔ 1974ء میں مولانا سلطان محمود ایک سال کے لیے شیخ الحدیث کی حیثیت سے فیصل آباد کی جامعہ سلفیہ میں تشریف فرماتھے۔ ٹیچر ٹریننگ کالج بند ہونے کی وجہ سے حافظ عبدالستار حماد اپنے گھر جانے کی بجائے بہاولپور سے مولانا سلطان محمود کے پاس جامعہ سلفیہ آگئے اور مولانا سے استفادے کے لیے انھیں جامعہ سلفیہ میں داخلہ مل گیا۔ لیکن چند روز کے بعد کالج کھلے تو وہ استاد محترم کے مشورے سے اوٹی کا امتحان دینے کے لیے بہاولپور چلے گئے۔امتحان دے کر پھر جامعہ |