ابن ماجہ کا درس لیا۔ البتہ علم نحو کی کتاب الفیہ ابن مالک پڑھنے کے لیے وہ روزانہ پیدل مولانا محمد یحییٰ فیروز پوری کی خدمت میں چک 126۔15ایل جایا کرتے تھے۔اب حافظ عبدالستار حماد تعلیم بھی حاصل کرتے تھے اور باپ کے ساتھ مسجد کی خدمت بھی کرتے تھے۔ مولانا عبدالقادر حلیم زیروی اور مولانا محمد یحییٰ دونوں وفات پا چکے ہیں۔ دونوں تقویٰ اور صالحیت کے اوصاف سے مصنف تھے۔ دونوں بزرگ ضلع فیروز پور سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا محمد رمضان سلفی جو لاہور کے مدرسہ رحمانیہ کی مسند شیخ الحدیث پر فائز ہیں مولانا محمد یحییٰ کے داماد ہیں۔ ان کی کوشش سے چوتھے پارے کی نحوی ترکیب (جو مولانا محمد یحییٰ نے مرتب کی تھی) چھپ گئی ہے۔ 11۔اگست 1969ءکو حافظ عبدالستار حماد نے میاں چنوں میں مولانا عبدالقادر حلیم مرحوم سے سنن ابن ماجہ مکمل کی تو اس موقع پر مولانا علی محمد سعید کو دعوت دی گئی جن کے مدرسے میں حافظ صاحب نے دینی تعلیم کے حصول کا آغاز کیا تھا۔ مولانا علی محمد سعیدی کا وطنی تعلق ضلع فیروز پور سےتھا۔ دونوں اساتذہ نے حافظ صاحب کو دعائیں دیں اور مشورہ دیا کہ آئندہ وہ جلال پور پیر والا کے دارالحدیث محمدیہ میں داخلہ لیں اور مولانا سلطان محمود سے کتب حدیث پڑھیں۔ اس سے پہلے بورے والا میں وہ مولانا سلطان محمود کا درس قرآن سن چکے تھے اور بہت متاثر ہوئے تھے۔ جلال پور پیر والا کا عزم حافظ عبدالستار حماد نے جلال پور پیر والا جانے کے لیے اپنے ایک ساتھی حافظ عبدالرحیم زاہد کو بھی تیار کر لیا۔ (جو آج کل کمالیہ میں خطیب ہیں اور انقلابی دواخانہ کے نام سے وہاں اپنا مطب بھی چلا رہے ہیں) یہ دونوں ماہ رمضان کے بعد تعلیمی سال کے آغاز (ماہ شوال) میں وہاں پہنچے تو داخلے کا امتحان لے کر انھیں داخل کر لیا گیا اور پڑھائی شروع ہو گئی۔ مولانا سلطان محمود محدثانہ وقار کے ساتھ علم حدیث پڑھاتے تھے۔ ان کے درس میں سند پر بحث ہوتی، سنن حدیث کی تشریح کی جاتی، ہر اہم مسئلے میں مختلف مسالک کا یہ دلائل تذکرہ کیا جاتا۔ پھر دلائل کے اعتبارسے راجح مسلک کو ترجیح دی جاتی۔ یہ ان کے درس حدیث کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ مولانا ممدوح سے انھوں نے جامع ترمذی اور صحیح بخاری(دوکتابیں) پڑھیں اور سند لی۔دارالحدیث محمدیہ پیر والا سے انھیں جو سند حاصل ہوئی، اس پر 4۔ اپریل 1971ءکی تاریخ مرقوم ہے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد سندفراغت حاصل کرنے کے بعدقدرتی طور پر حافظ صاحب کو فکر معاش لاحق ہوئی۔ دل میں |