Maktaba Wahhabi

533 - 665
کچھ مدت سے اہل حدیث کے تمام رسائل و جرائد میں علمائے کرام کے فتوے شائع ہو رہے ہیں۔ میرے پاس پاکستان، ہندوستا ن اور دیگرممالک سے شائع ہونے والے اہل حدیث کے تقریباً تمام ہفت روزے، پندرہ روزے اور ماہنامے اخبارات ورسائل آتے ہیں اور میں ان کے مضامین و مشمولات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ ایک یا دو صفحات کے فتوے سب رسائل میں چھپتے ہیں جو دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ مبارک باد کے مستحق ہیں یہ مفتی حضرات جو اتنی محنت سے فتوے تحریر فرماتے ہیں اور لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہر لائق احترام مفتی صاحب کا الگ الگ انداز نگارش اور نہج اظہار ہے اور بے حد موثر اور مبنی برتحقیق ہے۔ مفتی عبید اللہ خاں عفیف کا بھی ایک طریق نگارش ہے جو ہمارے نزدیک قابل تعریف ہے۔ مفتی عبید اللہ عفیف کے فتاوے مختلف اوقات میں متعدد اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے جن میں ہفت روزہ الاعتصام ہفت روزہ اہل حدیث ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث، ماہنامہ ترجمان الحدیث مجلہ الدعوۃ الاخوہ ماہنامہ صدائے ہوش شامل ہیں دہلی کے اخبار”اہل حدیث “میں بھی ان کے بعض فتوے چھپ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں مولانا علی محمد سعیدی نے اپنے مرتبہ ”فتاوی علمائے اہل حدیث“میں ان کے بعض فتوے شائع کیے ہیں۔ مفتی عبید اللہ عفیف ہر سوال کا تفصیل سے جواب دیتے ہیں۔ ان کے انداز جواب کی تعریف حضرت حافظ گوندلوی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا ابو حفص عثمانی، مولانا ابو البرکات احمد اور مولانا محمد یوسف (راجو وال) نے کی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ ان کے بعض فتووں کا عربی زبان میں بعض حضرات سے شیخ عبدالعز یز بن باز نے بھی مطلب پوچھا اور اس کی تصدیق فرمائی۔ بہر حال اس انتہائی اہم موضوع سے متعلق ان کا ایک انداز بیان ہے جو قابل تحسین ہے۔ مولانا عبید اللہ عفیف 44۔45سال سے شیعہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس اثنا میں سینکڑوں طلبا نے ان سے حصول علم کیا کسی نے ان سے زیادہ کتابیں پڑھی ہوں گی۔ کسی نے کم۔ ان کے دائرہ شاگردی میں بہر حال انھوں نے شرکت کی۔ فراغت کے بعد ان میں سے بعض نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا ہو گا او ربعض خطابت و امامت کی راہ پر قدم زن ہوئے ہوں گے۔ بعض نے تصنیف و خطابت اور امامت دونوں راہوں کو اپنایاہوگا۔ یہ فقیر ان سب کا قدردان ہے اور سب کی مساعی کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ میرے پاس ان کے ان تلامذہ کی جنھوں نے صحیح بخاری پڑھ کر ان سے سند حاصل کی جو فہرست پہنچی ہے وہ تیس بتیس حضرات کی ہے۔ جن میں پاکستانی بھی۔ ظاہر ہے یہ فہرست سینکڑوں تلامذہ سے کشیدکی
Flag Counter