مستقل طور پر تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس زمانے میں مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی جامعہ محمد یہ میں شیخ الحدیث کی مسند علیا پر فائز تھے۔مولانا عبد اللہ امجد نے 1956ء میں جامعہ محمد یہ سے سند فراغت لی تھی۔ فراغت کے بعد وہیں مدرس مقرر کر لیے گئے۔ دو سال مدرسہ خادم القرآن و الحدیث جھوک دادو کے اور دو سال دارالعلوم تعلیم الاسلام اوڈانوالہ کے علاوہ طالب علمی کا پورا زمانہ جامعہ محمدیہ (اوکاڑہ) میں گزارا۔ جامعہ محمد یہ ہی سے فارغ ہوئے۔ اور جامعہ محمد یہ کی وجہ سے انھیں شہرت بھی ملی اور بے شمار و طلباءسے تعارف ہوا۔ جامعہ محمد یہ میں مولانا عبداللہ ماجد نے چار سال سلسلہ تدریس جاری رکھا۔ اس اثنا میں سنن نسائی، مشکوٰۃ شریف، جامع ترمذی، تفسیر جامع البیان، کافیہ تلخیص المفتاح، الفیہ وغیرہ کتابیں پڑھائیں۔ اس کے بعد مولانا عبداللہ ویرووالوی کے کہنے پر عبداللہ امجد فیصل آباد دارالقرآن و الحدیث میں چلے گئے۔ اسی سال حضرت حافظ عبداللہ بڈھیمالوی(جو جامعہ محمد یہ میں شیخ الحدیث تھے)جامعہ سلفیہ تشریف لے گئے۔ مولانا عبداللہ ویرووالوی سے بات چیت کے بعد مولانا عبداللہ امجد نے مولانا معین الدین لکھوی کو ٹیلی فون کردیا کہ”میں آئندہ سال فیصل آباد میں مولانا عبداللہ ویرووالوی کے مدرسہ دارالقرآن والحدیث میں تدریس کرنا چاہتاہوں کہ یہ میرے گاؤں (چک نمبر36) کے قریب ہے۔“ مولانا عبداللہ امجدکے بقول مولانا معین الدین لکھوی نے فرمایا:”اچھا تیری مرضی۔“ اس سے پہلے مولانا عبداللہ بڈھیمالوی کا خط مولانا معین الدین لکھوی کو پہنچا تھا کہ”میں آئندہ سال جامعہ محمد یہ نہیں آؤں گا، آپ جامعہ کے لیے کسی شیخ الحدیث کا انتظام کر لیں۔“ مولانا معین الدین لکھوی دو مدرسوں کے اچانک جواب دینے پر پریشان تو ہوئے لیکن ان جگہ بعض حضرات کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ بہر حال چار سال مولانا عبداللہ امجد فیصل آباد کے دارالقرآن و الحدیث میں پڑھاتے رہے۔اس کے بعد حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کے فرمان کے مطابق جامعہ سلفیہ میں تشریف لے گئے۔وہاں موطاامام مالک، مختصر المعانی اور مسلم الثبوت وغیرہ کتابیں پڑھائیں۔ ایک سال وہاں رہے۔پھر مولانا محمد عبدہ اور مولانا معین الدین کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے جامعہ محمدیہ(اوکاڑہ)چلے گئے۔وہاں پہلے سال صحیح مسلم، شرح عقائد نسفی، موطاامام مالک، اور سنن ابی داؤد وغیرہ کتابوں کی تدریس کی۔ اس وقت مولانا محمدعبدہ جامعہ محمدیہ کی مسند شیخ الحدیث پر متمکن تھے۔اس سے اگلے سال 1970ءمیں مولانا محمدعبدہ نے اپنی خدمات ادارہ علوم اثریہ (فیصل آباد) کے سپرد کردیں تو مولانا معین الدین لکھوی نے مولانا عبداللہ امجد کو جامعہ محمد یہ کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث بنادیا۔ |