Maktaba Wahhabi

514 - 665
مولانا صاحب نے کبھی ننگے سر نماز نہیں پڑھی، بلکہ ان کی طرف سے دارالعلوم میں اعلان تھا کہ کوئی معلم یا متعلم ننگے سر نماز نہ پڑھے۔ دارالعلوم میں امامت کے لیے کسی کومقرر فرما دیتے تھے۔ خود نماز نہ پڑھاتے تھے۔ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ان کے معمو لات میں شامل تھا۔ انتظامی امور میں بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایک دفعہ فرمانے لگے مولوی عبدالرشید اگر آپ کو کسی معاملے میں رخصت کی ضرورت پڑے تو درخواست لکھ کر چھٹی منظور کرایا کریں۔ اگر آپ بالفرض اپنے گھر میں ہیں اور فوری طور پر کوئی کام پڑگیا ہے جس کی وجہ سے دارالعلوم میں حاضر نہیں ہو سکتے تو بذریعہ ٹیلی فون اطلاع دے دیا کریں۔ اگر ٹیلی فوت میسر نہ آسکے تو رخصت کے بعد دارالعلوم میں آئیں تو مجھ سے مل کر نہ آنے کی وجہ بیان کریں۔ اس کے بعد مسند درس پر بیٹھیں۔ مولانا عبدالرشید تقریباً چھ سال مولانا کی حیات مبارکہ میں دارالعلوم میں خدمت تدریس انجام دیتے رہے۔ مولانا کو بھی ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ جب مولانا اس دار فانی سے عالم آخرت کو رخصت ہو گئے تو ان کے فرزند گرامی پروفیسرسید ابو بکر غزنوی کو دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے مہتمم و ناظم مقرر کیا گیا۔ ان کے عہد اہتمام میں بھی مولانا عبدالرشید چھ سال درس و تدریس کی خدمت میں مصروف رہے۔پھر ان کی اہلیہ بیمار ہو گئیں تو انھیں اس خدمت سے مجبوراً الگ ہونا پڑا۔ اس طرح انھوں نے بارہ سال دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں فریضہ تدریس سر انجام دیا۔ مولانا عبدالرشید کے زمانہ میں تدریس میں، یہ فقیر اخبار”الاعتصام “کا ایڈیٹر تھا اور اخبار کا دفتر دارالعلوم تقویۃ الاسلام کی بلڈنگ میں تھا۔میرے مولانا عبدالرشید سے اچھے مراسم تھے اور میں ان کی صالحیت اور صلاحیت سے بہت متاثر تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ہر روز بلاناغہ سائیکل پر نو دس میل کا سفر کر کے آتے تھے اور آتے ہی مسند درس پر بیٹھ جاتے تھے۔ مولانا غزنوی ان کے طریق تدریس ان کی محنت اور نیکی کا بہتر الفاظ میں تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ کئی سال مولانا عبدالرشید مغل پورہ کی مسجد توحید گنج میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے اور نماز فجر کے بعد درس قرآن دیتے رہے۔ مغل پورہ کے ساتھ ہی ایک آبادی کا نام رام گڑھ تھا، قیام پاکستان سے قبل یہ ہندوؤں کی آبادی تھی۔قیام پاکستان کے بعد یہاں مسلمان آباد ہوئے اور اس آبادی میں اہل حدیث کی مسجد تعمیر ہوئی۔ جو لوگ اس مسجد کی تعمیر و ترقی کے لیے بہت زیادہ سر گرم اور کوشاں تھے، ان میں ایک نمایاں نام مستری محمد حسن کا تھا جو دبلے پتلے منکسر مزاج شخص تھے۔ بعض بیماریاں بھی انھیں لاحق تھیں۔ لیکن تمام جسمانی تکلیفوں کے باوجود وہ مسجد کے لیے ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ اس سلسلے میں میرے پاس اخبار”الاعتصام“میں ان کی آمد و رفت رہتی تھی۔پھر ایک وقت آیا
Flag Counter