ساتویں روز عقیقے کی سنت پر عمل کرنے کے لیے ان کی بیوی نے گاؤں کی طلائی بالیاں انھیں دیں کہ انھیں بیچ کر بکرے خریدے جائیں اور عقیقہ کیا جائے۔ مولانا عبدالرشید کے پہلو نٹھی کے اس بچے کا نام حافظ عبدالرؤف ہے اور اب یہ بچے نہیں ہیں، ماشاء اللہ خود بچوں والے ہیں، عالم فاضل ہیں، حافظ قرآن ہیں، باپ کے قائم کردہ جامعہ الدراسات الاسلامیہ کے ناظم اور ماہنامہ ”ام الہدی“کے نگران اعلیٰ ہیں۔ ملنسار اور معاملہ فہم ہیں۔مختلف ذمہ داریوں کے ہجوم میں سب سے حسب مراتب پیش آنا اور متوقع و محل کی مناسبت سے لوگوں سے برتاؤ کرنا بہت مشکل کام ہے، لیکن حافظ عبدالرؤف کو اللہ تعالیٰ نے اس وصف سے نوازا ہے کہ ان کا رویہ سب ملنے والوں سے حسن سلوک کا آئینہ دار ہے۔ حافظ عبدالرؤف ماشاء اللہ بہت اچھے مقرر اور خطیب بھی ہیں۔اپنے والد مکرم مولانا عبدالرشید کی غیر حاضری میں خطبہ جمعہ ان کی جگہ وہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سے اوصاف سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی اور امور خیر میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔ گزشتہ سطور میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں مولانا عبدالرشیدکی تدریس کے متعلق چند باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اب آئندہ سطور میں حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی حیات طیبہ کے بعض پہلووؤں کے بارے میں مولانا عبدالرشید صاحب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔ مولانا سے متعلق میں بھی اپنی کتاب”نقوش عظمت رفتہ“میں شائع شدہ طویل مضمون میں بہت سی باتیں لکھ چکا ہوں، تاہم اضافی شہادت کے لیے قارئین کرام مولانا عبدالرشید کی زبانی بھی چند باتیں ملاحظہ فرمالیں۔دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے ناظم و مہتمم حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی نہایت زیرک، انتہائی فہیم، دور اندیش، فصاحت و بلاغت کے امام اور اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے تھے۔ قعدہ کی شکل اختیار کر کے ذکر الٰہی میں مشغول ہو جاتے تھے۔دارالعلوم کی بالائی منزل میں سکونت پذیر تھے۔ تہجد کے وقت خوف خدا سے ان کے رونے کی آواز نیچے اقامتی طلبا کو سنائی دیتی تھی، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے منتخب امیر تھے اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ ایک دفعہ مؤطا امام مالک طلبا کو پڑھارہے تھے کہ ضلع لاہور کے ڈپٹی کمشنر ملاقات کے لیے آئے اور خاموشی کے ساتھ بیٹھ گئے۔درس سے فراغت کے بعد سلام دعا ہوئی تو مولانا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی حدیث پڑھا رہا تھا۔ حدیث کی عظمت کے پیش نظر دوران تدریس آپ سے کوئی بات نہ کر سکا۔ ڈپٹی کمشنرصاحب نہایت خوش ہوئے۔ مولانا عبدالرشید مزید فرماتے ہیں۔ |