بہر کیف حافظ عبدالرشید گوہڑوی اور مولانا عبدالرشید اسلام پوری نے شیخ الحدیث حضرت حافظ محمد اسحاق صاحب کی نگرانی میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں سلسلہ تدریس کا آغاز کردیا۔مولانا داؤد غزنوی ان دونوں پر خوش تھے اور حضرت شیخ الحدیث صاحب بھی ان کے طریق تدریس سے مطمئن تھے۔ ہر ایک کا ایک سو پندرہ روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا جو اس زمانے کے حالات کے مطابق بہت مناسب تھا۔مولانا عبدالرشید اسلام پوری مدرس کے علاوہ خطیب بھی تھے۔ مولانا کو اس کا علم تھا۔ اس وقت مصری شاہ میں سلطان پورہ کے قریب بی بی احاطہ میں اہل حدیث کی ایک مسجد تھی جو ایک بزرگ وزیر علی شاہ نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نام وقف کی تھی، یہ کل رقبہ دو کنال پانچ مرلے کا تھا، مولانا غزنوی نے مولانا عبدالرشید اسلام پوری کو اس مسجد میں خطابت کا فریضہ انجام دینے کا حکم دیا۔ انھوں نےمولانا کے ارشاد کے مطابق خطابت کا سلسلہ شروع کردیا، لیکن اس رقبے کو وقف کرنے والے اس کی واپسی کے لیے سر گرم ہو گئے اور معاملہ عدالت میں چلا گیا، جس میں وہ ناکام ہو گئے۔ آخر مولانا نے باہمی صلاح مشورے سے وہ رقبہ انھیں واپس کردیا۔ اس سے کچھ عرصہ پیشتر مسجد توحید گنج (مغل پورہ ) کے منصب خطابت پر مولانا حافظ اسماعیل ذبیح فائز تھے وہ راولپنڈی تشریف لے گئے تو وہاں کی مجلس انتظامیہ نے خطابت و امامت کے لیے مولانا عبدالرشید اسلام پوری سے رابطہ پیدا کیا۔ بات مولانا غزنوی تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا کہ آپ ان سے یہ طے کر لیں کہ خطبہ جمعہ کے علاوہ صرف جہری نمازیں (مغرب، عشاء اور فجر) اس مسجد میں پڑھایا کریں گے۔ چنانچہ مولانا کے فرمان کے مطابق معاملہ طے ہوگیا۔ مسجد کی انتظامیہ نے رہائش کے لیے مکان بھی دے دیا اور ساٹھ روپے ماہانہ وظیفہ بھی دینے لگے۔ مسجد توحید گنج میں وہ تین وقت (مغرب، عشا اور فجر) کی نمازیں پڑھاتے تھے۔ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کا درس دیتے اور خطبہ جمعہ ارشا دفرماتے تھے۔ دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے مغل پورہ نو دس کلو میڑ کے فاصلے پر ہوگا۔ مولانا عبدالرشید روزانہ ہوتے اور شام سے پہلے گھر چلے جاتے۔ یہ ان کا ہر روز کا معمول تھا، جس پر وہ گرمی، سردی بارش، آندھی، ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی سال عمل کرتے رہے۔ مولانا عبدالرشید اسلام پوری کے پہلے بچے کی پیدائش مغل پور ہی میں ہوئی تھی۔ ساتویں دن اس بچے کا عقیقہ کیا گیا تھا۔ مجھے بھی عقیقے کی دعوت دی گئی تھی اور میں اس میں شامل ہوا تھا۔ مولانا عبدالرشید نے مجھے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس دو بکرے خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ |