Maktaba Wahhabi

511 - 665
ان دونوں کو مزید تعلیم کے لیے مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے لاہور میں جامعہ اشرفیہ میں داخل کرادیا تھا۔ جامعہ اشرفیہ کے مہتمم اس زمانے میں مفتی محمد حسن صاحب مرحوم تھے جو مولانا غزنوی کے والد محترم حضرت امام سید عبدالجبارغزنوی کے شاگرد تھے اور مولانا کا اپنے استاذعالی قدر کےفرزند گرامی ہونے کی وجہ سے بےحد احترام کرتے تھے، مولانا بھی ان سے بہت اکرام سے پیش آتے تھے۔چنانچہ مولانا نے مفتی صاحب سے ان دونوں کے داخلے کے لیے فرمایا تو انھوں نے فوراً داخل کر لیا اور ایک سال وہاں تعلیم حاصل کی۔ مولانا عبدالرشید اور حافظ عبدالرشید کو تعلیم و تعلم سے دلی لگاؤ تھا اور درسی کتابیں انھوں نے بڑے شوق اور محنت سے پڑھی تھیں۔جامعہ سلفیہ اور جامعہ اشرفیہ میں یہ ایک ایک سال معروف اساتذہ سے تعلیم حاصل کر چکے تھے، نیز خود حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے حلقہ شاگردی میں رہ چکے تھے، اس لیے مولانا اس کی قابلیت اور محنت سے آگاہ تھے۔ وہ ان دونوں کو رشیدین کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ انھوں نے دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں ان کی تقرری فرما دی۔ ان دونوں کی خوش قسمتی تھی کہ جوانی کے دور میں ان کو حضرت مولانا غزنوی نے یہ اعزاز بخشا اور ایسے دارالعلوم کے استاذ مقرر کیا جو تدریسی، علمی اور عملی اعتبار سے ایک عظیم الشان تاریخ رکھتا تھا۔ مولانا نے ان سے فرمایا کہ آپ دونوں (رشیدین) مجھ غزنوی سے وعدہ کریں کہ ہم غزنوی کو نہیں چھوڑیں گے اور میں غزنوی آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس قول و قرار کے بعد مولانا نے ان کو دارالعلوم کے اساتذہ کی جماعت میں شامل فرما لیا۔اس وقت حضرت حافظ محمد اسحاق صاحب دارالعلوم کی مسند شیخ الحدیث پر متمکن تھے اور انھوں نے انہی کی نگرانی میں خدمت تدریس سر انجام دینا تھی حضرت حافظ صاحب مرحوم جلیل القدر عالم، رفیع المرتبت مدرس، بہت بڑے مصنف اور بہت اچھے مترجم تھے۔ خوش کلام اور سب کے ہمدرد۔طلباءان کے طریق تدریس سے بہت متاثر تھے۔ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔مولانا غزنوی کی وفات کے بعد دارالعلوم کی مسند اہتمام ان کے صاحبزادہ ٔ گرامی قدرسید ابو بکرغزنوی کے سپرد ہوئی تو انھوں نے بھی ان سے انتہائی تکریم کا برتاؤکیا۔لیکن سید ابو بکر غزنوی کی وفات کے بعد دارالعلوم کے معاملات میں کچھ تبدیلی پیدا ہوئی۔تو حضرت حافظ صاحب کو مسند تدریس سے علیحدہ کردیا گیا اور پھر ان کی خدمات حضرت حافظ عبداللہ روپڑی کی قائم کردہ جامعہ قدس اہل حدیث لاہور نے حاصل کر لیں۔ انھوں نے وہیں 4۔جوالائی 2002ءکووفات پائی۔ اس عالم جلیل نے اپنے پیچھے ہزاروں شاگرد چھوڑے جو مختلف مقامات پر تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
Flag Counter