(فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ) ”آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔انسان کچھ سوچتاہے، اللہ کو کچھ اور منظور ہوتا ہے۔ (فَعَّال لِمَا يُرِيد) بہرحال اللہ تعالیٰ نے عبدالرشید کو صحت عطا فرمائی اورموضع ڈھلیانہ کے مدرسے میں دوباہ حصول علم کا سلسلہ شروع کردیا اور پھر اسی مدرسے سے انھیں سند فراغت حاصل ہوئی۔اس کے بعد لاہور آکر دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں داخلہ لیا۔اس کا نصاب مکمل کیا اورپنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان بھی پاس کرلیا۔اب وہ ہماری عام اصطلاح میں مولانا عبدالرشید تھے اور باعمل عالم۔ساتھ ہی میرے خیال کے مطابق نہایت مخلص اور بلند اخلاق۔مجھے یاد پڑتا ہے، انھیں مولانا عبدالرشید اسلام پوری کہا جاتا تھا۔اس نسبت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا آبائی گاؤں اسلام پور تھا اور یہ بہت اچھی نسبت تھی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کی شادی کا مسئلہ پیش آیا۔ان کے خاندان کے تمام لوگ ہندوتھے اور قیام پاکستان کے بعد ہندوستان چلے گئے تھے۔ان سے مذہبی، معاشرتی اوروطنی سلسلہ ختم ہوچکا تھا۔اب مولانا محمد اسحاق گوہڑوی رحمانی مرحوم اورحافظ عبدالرشید گوہڑوی نے کوشش کرکے اپنے گاؤں(گوہڑنزد پتوکی، ضلع قصور)میں ان کے لیے رشتے کا انتظام کردیا۔وہاں کی آرائیں برادری کے ایک بزرگ حاجی عبداللہ صاحب تھے جو پرہیز گاری اور صالحیت میں بڑی شہرت رکھتے تھے، ان سے مولانا محمداسحاق رحمانی اور حافظ عبدالرشید گوہڑوی نے بات کی اورمولانا عبدالرشید ممدوح کی علمی اور عملی صلاحیتوں سے آگاہ کیا۔وہ اپنے چندعزیزوں کے ساتھ ان کے گاؤں اسلام پور گئے۔مولاناعبدالرشید کو دیکھا اور ان کی والدہ سے بات ہوئی اور نیک کردار حاجی عبداللہ نے ان کو اپنی بیٹی دینے کا فیصلہ کرلیا۔بہت سے رشتہ داروں نے حاجی صاحب مرحوم کو رشتہ دینے سےروکنے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ آرائیں ہیں اور یہ لڑکا ہندو سے مسلمان ہواہے، یعنی نو مسلم ہے، آپ اسے رشتہ نہ دیں، لیکن حاجی صاحب اپنی بات پر پکے رہے اور شادی ہوگئی۔بیوی سلیقہ شعار، احکام اسلام کی پابند، فرمانبردار، اور معاملہ فہم تھی۔اللہ تعالیٰ نے نیک اولاد عطافرمائی شادی کے 52برس بعد اس نیک خاتون نے 16مارچ 2005ء کو وفات پائی۔اناللہ واناالیہ راجعون تحصیل علم اورشادی کے بعد قدرتی طور پر مولانا عبدالرشید کو ذریعہ معاش کی فکر لاحق ہوئی۔چنانچہ یہ پھر اپنے پرانے محسن میاں عبدالحق ایم ایل اے کے پاس گئے جو اس زمانے میں منٹگمری (ساہیوال) میں سکونت پذیر تھے، ان سے کسی آبرومندانہ ملازمت کے لیے کہا، انھوں نے ساہی |