عبدالرشید کو دیکھا تھا، جب وہ پندرہ سولہ سال کی عمر کے تھے۔اگرالاٹمنٹ چٹ گم نہ ہوتی تو یہ پکے کاروباری ہوتے اور دکانداری کرتے۔لیکن اللہ کو ان کا آبائی پیشے کی طرف آنا منظور نہ تھا، اس کی مشیت یہ تھی کہ مستقبل میں یہ اس کے دین کی خدمت کریں۔چنانچہ اس نے ان کو اس راہ پر لگادیا۔ ڈھلیانہ کے دینی مدرسے میں اس وقت حضرت مولانا حافظ محمد اسحاق(ساکن حسین خاںوالا)مولانا حافظ عبداللہ(آف جھنڈا بگا)مولانا حافظ محمد بھٹوی اور مولانا حبیب الرحمٰن لکھوی(بن حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی) فرائض تدریس سرانجام دیتے تھے۔رحمهم اللّٰه تعاليٰ اسی دوران عبدالرشید بیمار ہوگئے اورٹائیفائیڈ بخار کی گرفت میں آگئے۔بیماری کی وجہ سے انھیں گاؤں لایاگیا۔انیس روز ان پر اس بخار کا زوررہا اور یہ بالکل بے ہوش رہے۔ان کے معالج ڈاکٹر نصر اللہ تھے جو ان کے گاؤں کے رہنے والے تھے۔آخر کار انھوں نے ان کی والدہ سے کہا کہ اس کا علاج میرے بس سے باہر ہے۔معلوم ہوتا ہے اس لڑکے کا آخری وقت آگیاہے۔چنانچہ والدہ نے ڈاکٹر کے اظہار مایوسی کے بعد دل کڑاکرکے بیٹے کے لیے کفن خرید لیا اور اس کے سرہانے رکھ دیا۔پھر چاول پکائے اور غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کیے اور ان سے بیٹے کی صحت کے لیے دعا کی درخواست کی۔چاولوں کی تقسیم کاسلسلہ جاری تھا کہ ڈاکٹر آیا اور اس نے کہا کہ میرے پاس آخری چارۂ کار کے لیے ایک دواہے، وہ کھلاکر دیکھتے ہیں، ممکن ہے اللہ شفا بخش دے۔چنانچہ ڈاکٹر نے ایک گولی عبدالرشید کے منہ میں ڈالی۔گولی منہ میں جاتے ہی عبدالرشید کو قے آئی اور ان کے اندر سے خون کا ایک لوتھڑا نکلا، اس کےساتھ ہی ان کی آنکھ کھل گئی اور زندگی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔یہ باتیں صحتیابی کے بعد عبدالرشید کی والدہ نے بیٹے کو بتائیں۔اپنے سرہانے پڑا ہوا کفن کا کپڑا بھی انھوں نے دیکھا۔اس وقت ان کی عمر بیس برس کی تھی۔اب ماشاء اللہ وہ اپنی زندگی کی 77 ویں منزل سے آگے نکل چکے ہیں۔یہ اللہ کا ان پرخاص کرم ہے کہ ان کی ہرمنزل پُر بہاررہی اور ہرمنزل کا ہر قدم جادۂ مستقیم پررہا۔ ان کاسال ولادت 1930ء ہے اور اس فقیر کا1925ء ہے۔اس حساب سے میں ان سے عمر میں پانچ سال بڑا ہوں اور عمل میں بہت پیچھے ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى السَّبْعِينَ وَقُل مَا يَجُوزُ) ”کہ میری اُمت کے لوگوں کی عمریں ساٹھ سال سے سر برس کے درمیان ہونگی، ستر سے زیادہ عمر پانے والے کم تعداد میں ہونگے۔“ اب تک تو کسی نہ کسی طرح گزر گئی۔بُرائی کے ساتھ تھوڑی بہت اچھائی بھی چلتی رہی۔ہرشخص کو بُرائی کا بھی پتا چل جاتا ہے اور نیکی کا بھی کسی نہ کسی طرح احساس ہوجاتا ہے۔ |