اب وقت کے قدم بڑھتے بڑھتے 14۔اگست 1947ء تک پہنچ گئے۔اور برصغیر آزاد ہوگیا۔حالات بالکل بدل گئے۔عبدالرشید کے گاؤں اسلام پور میں( جیسا کہ پہلے بتایا گیا) ہندوؤں کے بیس گھر تھے۔یہ سب لوگ مسلمان ہوگئے اورمسجد میں جا کر نماز پڑھناشروع کردی۔گائے ذبح کرکے اس کا گوشت بھی کھانے لگے۔کچھ دن یہ سلسلہ جاری رہااس کےبعد ہندوؤں کی ڈوگرہ فوج ٹرک لے کرآئی تو یہ سب لوگ جو ظاہری طور پر مسلمان ہوگئے تھے، ہندوستان جانے کے لیے فوج کے ٹرکوں میں سوار ہوگئے۔البتہ عبدالرشید کی والدہ اور چھوٹا بھائی حاکم چند ہندوستان نہیں گئے۔عبدالرشید کی والدہ کو ان کے تایا جیدیال مل نے یہ رائے دی کہ تمہارے دو بیٹے مسلمان ہوگئے ہیں۔تم ماں بیٹا بھی مسلمان ہوجاؤ اور یہیں رہو، ہمارے ساتھ ہندوستان نہ جاؤ، معلوم نہیں یہاں سے جاکر کتنی مصیبتوں سے دوچار ہوناپڑے۔اسی اثناء میں ان کی پھوپھی نے بھی اسلام قبول کرلیا۔جن کا نام جنت بی بی رکھاگیا۔چنانچہ اسلام قبول کرنے والے افراد اپنے گاؤں میں رہے اور مسلمان ہوگئے۔باقی خاندان کے تمام لوگ یہاں سے نکل گئے۔جھوک دادومیں عبدالرشید اوران کے بھائی کو والدہ اور بھائی کے قبولِ اسلام کا پتا چلا تو بے حد خوش ہوئے اور فوراً گاؤں پہنچے۔والدہ اور بھائی سے ملے۔والدہ کا پہلا نام ریشم دیوی تھا۔اب ان کا نام فاطمہ بی بی رکھا گیا۔سب سے چھوٹے بھائی کا نام حاکم چند تھا اب اس کا اسلامی نام عبدالحمید رکھاگیا۔ پہلے ان تینوں حقیقی بھائیوں کے ہندووانہ نامو ں کی ترتیب یہ تھی :برج لال، کرشن لال، اور حاکم چند۔ اب اسلامی ناموں کی ترتیب یہ ہوئی؛ عبدالمجید، عبدالرشید اور عبدالحمید۔ قیام پاکستان کےبعد نوجوان عبدالرشید اپنے آبائی پیشہ(دکانداری) کی طرف آتے ہیں۔ اس وقت اوکاڑہ میں ہندوؤں کی متروکہ الاٹ منٹ کی ذمہ داری حکومت کی طرف سےمیاں عبدالحق ایم ایل اے کے سپرد کی گئی تھی۔اس سلسلے میں عبدالرشید نے میاں عبدالحق سے بات کی تو انھوں نے ان کو ایک دکان الاٹ کردی اور الاٹمنٹ چٹ بھی بھی دے دی۔انھوں نے اس دکان میں اپنی حیثیت کے مطابق سودا سلف ڈالا اور اس کی فروخت شروع کردی۔یعنی دکاندار ہوگئے۔لیکن الاٹمنٹ چٹ ان سے کہیں گم ہوگئی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرسے کے بعد متعلقہ سرکاری محکمے نے ان کو دکان سے بے دخل کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد پھر حالات بدلتے ہیں اور الاٹمنٹ چٹ کی گمشدگی عبدالرشید کے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہوتی ہے۔انھوں نے ڈھلیانہ کے اسلامی مدرسے میں حصول علم کا سلسلہ شروع کردیا۔یہ وہی ڈھلیانہ گاؤں اور ڈھلیانہ مدرسہ ہے، جس میں ہم نے پہلی مرتبہ 1949ء میں |