Maktaba Wahhabi

500 - 665
پہلے بتایا جاچکا ہے کہ اوکاڑہ کی میونسپل کمپنی کے پریزیڈنٹ اسفندر یارخاں تھے۔ لیکن اب وہ پریزیڈنٹ نہیں رہے تھے، اب نیا پریزیڈنٹ آگیا تھا جو سکھ تھا اور اس کا نام سوبھا سنگھ تھا۔کرشن لال کا خالہ زاد بھائی اوربعض دیگر رشتے دار اسے سوبھا سنگھ کے پا لے گئے۔ اسے دیکھتے ہیں سوبھا سنگھ کو اس نےڈانٹنا شروع کردیا اور کہا تم مولوی کے ساتھ گاہے کے ہڈکھاکرآئے ہو۔میں تمھیں تھانے لے جاؤں گا۔تمھیں وہاں یہ بیان دینا ہوگا کہ مولوی نور محمد مجھے اغواء کرکے لے گیاتھا۔اور اتنے دن اس نےمجھے اپنے قبضے میں رکھا۔اس کے خلاف اغواء کا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔تھانے میں جوکچھ ہم کہیں گے، تم نے اس کی تصدیق کرناہوگی اور ہماری بات کو صحیح کہنا ہوگا۔یہ باتیں سوبھا سنگھ نے کرشن لال سے نہایت سخت لہجے میں کہیں اور کرشن لال نے نہایت ٹھنڈے دل سے سنیں۔ اس وقت دو مسلمان چونگی محرر(محمد منشا اور محمد شفیع) بھی وہاں موجود تھے۔انھوں نے یہ واقعہ مولوی نور محمد کو بتایا جو اس وقت ضلعدار کے مکان میں قیام پذیرتھے۔انھوں نے مولوی صاحب ممدوح کو یہ بھی بتایا کہ اس لڑکے کے چہرے پر سوبھا سنگھ کی ان باتوں کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہورہا تھا۔بہرحال سوبھا سنگھ اور بعض لوگ کرشن لال کو تھانے لے گئے، لیکن بغیر کوئی مقدمہ درج کرائے واپس آگئے۔ بعدازاں کرشن لال کو اس کےرشتے دار کے گھر لایاگیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اسےواپس اپنے گاؤں اسلام پور لے جانا چاہیے۔یہاں اس کا رہنا مناسب نہیں۔اس فیصلے کے بعد کرشن لال نے اپنی والدہ اور رشتے داروں سے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے میں تھوڑی دیر اس شہر میں گھوم لوں۔پھر واپس آجاؤں گا۔انھوں نے اجازت دے دی لیکن اس کے ساتھ اس کے بھائی برج لال کو بھیج دیا کہ یہ کہیں بھاگ نہ جائے۔باہر آکر اس نے برج لال کو جلیبیاں کھلائیں اورکہا کہ گنگارام کی دکان پر میں نے کپڑے رکھے ہیں، وہ لے کر تھوڑی دیر کو آجاؤں گا، تم گھر جانا چاہوتو چلے جاؤ۔چنانچہ وہ واپس گھر چلا گیا اورکرشن لال وہاں سے سیدھا مولوی نور محمد کے پاس ضلعدار کے مکان پر پہنچ گیا۔مولوی صاحب نے اسے دیکھ کر اللہ کا شکر اداکیا اورسجدے میں گر گئے۔فرمایا اللہ نے تمھیں کامیاب فرمادیا ہے۔اس سے قبل وہ محمد منشا اور محمد شفیع سے وہ باتیں سن چکے تھے جو اس سے سوبھاسنگھ نے کی تھیں اور اس پر ان باتوں کا کچھ اثر نہیں ہواتھا۔ اب طے پایا کہ بچے کواللہ کے سپر د کرکے اپنے اسلام کا کھل کر اظہار کردیناچاہیے، جو ہونا ہے ہوجائے۔اس وقت ان کا گاؤں اسلام پور ضلع منٹگمری (حال ساہیوال) میں تھا۔مولوی نور محمد، کرشن لال کو منٹگمری لے گئے اور ایک وکیل سے مل کر حقیقت حال بیان کی۔وکیل نے پوری بات سن کر اے ڈی ایم رانا عبدالحمید خاں کی عدالتی میں کرشن لال کی طرف سے ایک درخواست پیش
Flag Counter