Maktaba Wahhabi

496 - 665
بیان کرتے ہیں۔ اللہ دتہ اور عطا محمد کے خیال میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کوکوئی نہیں پہنچ سکتا۔ان کے فرامین و احکام نہایت واضح ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یہ بحث و مباحثہ ان ہم جماعت لڑکوں کا ہر روز کا معمول بھی ہے اور مشغلہ بھی ہے۔ اسی طرح چلتے چلتے ایک دن آیا کہ اللہ دتہ اور عطا محمد نے کرشن لال کو کلمہ تو حید لااله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه پڑھادیا اور کرشن لال نے بغیر کسی جبر کے بدرجہ غایت مسرت کے ساتھ یہ کلمہ پڑھ لیا۔ لیکن اسمی اعتبار سے وہ کرشن لال ہی ہے اور جسمانی لحاظ سے نابالغ۔ذہنی اعتبار سے اسے کچھ معلوم نہیں کہ اسلام میں کون سی خوبی اور کون سی صداقت ہے، جس نے اسے کلمہ پڑھنے اور اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ بس اس کے دل کی آواز ہے جو اسلام کی طرف لے آئی ہے اور ناقابل بیان سوچ ہے جس نے اسے اس راہ پر لگادیا ہے۔اب ہندو مذہب سے وہ کلیۃً دور ہو گیا ہےبلکہ اس سے نفرت کرنے لگا ہے۔ آٹھویں جماعت میں اس نے اپنے دونوں ساتھیوں سے نماز بھی سیکھ لی ہے اور اس کے طریق ادا کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لی ہیں اور پھرلوگوں سے چھپ چھپا کر نماز پڑھنے بھی لگا ہے۔ ایک دن عجیب معاملہ ہوا۔ چھٹی کے بعد حسب معمول کرشن لال، اللہ دتہ اور عطا محمد تینوں اپنے گاؤں کی طرف آرہے تھے کہ عطا محمد نے اس کی چوٹی کاٹ دی، یعنی وہ بال جولٹ یا”بودی“کی صورت میں ہندو اپنے سر پر رکھتے ہیں، عطا محمد نے قینچی سے ان کا خاتمہ کردیا۔چوٹی ان کا مذہبی شعار ہے، جس پر عمل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ان کے نزدیک ضروری ہے۔یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ گوراں دتا مل کے بیٹے کرشن لال کی چوٹی مسلمانوں نے کاٹ دی ہے۔ اس نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کرلی اور ہندو مسلم تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا۔لیکن بعض لوگ درمیان میں پڑے اور تلخی کے آثار ختم ہوگئے۔اسی اثنا میں مڈل کا امتحان ہوااور کرشن لال کو اچھے نمبروں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اب وہ ذہنی طور سے مسلمان تھا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ نماز پڑھنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟یہ بات وہ کسی سے پوچھ نہیں سکتا تھا۔ اس کے راز دان دو ہی لڑکے تھے عطا محمد اور اللہ دتہ۔ وہ بھی شاید اس قسم کے مسائل نہیں جانتے ہوں گے۔ اس سلسلے میں اس نے”اجتہاد “سے کام لینا شروع کیا۔ وہ کسی طرح اپنے گھر کی کھوہی کے پانی سے وضو کرتا اور مندر میں چلا جاتا، وہاں آلتی پالتی مار کر مغرب کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتا اور اشارے سے نماز ادا کرلیتا، کبھی دکان میں کوئی کتاب سامنے رکھ لیتا اور تھوڑی بہت اوپر نیچے حرکت کر کے اس فریضے سے سبکدوش ہو جاتا۔ کبھی چلتے پھرتے اشاروں میں پڑھ لیتا۔ایک دن چند ساتھی پیلو کھانے کے لیے گئے۔وہ نماز ظہر کا وقت
Flag Counter