جامعہ میں سنت نبوی اور سیرت نبوی کے شعبے میں خدمت انجام دیتے ہیں۔ مہمان خصوصی سے تقریب میں شریک طلبا کا انفرادی تعارف کرایا گیا۔ ایک طالب علم محمد حسن ضامرانی کے بیٹے محمد عبداللہ ضامرانی تھے۔ مہمان خصوصی نے اس طالب علم سے پوچھا کہ تم مولانا عبدالغفار ضامرانی کو جانتے ہو؟محمد عبداللہ نے کہا وہ تو میرےچچا جان ہیں۔ شیخ قریوتی نے سنا تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا میں پاکستان میں کئی مقامات پر گیا ہوں لیکن تمھارے چچا جیسا عالم دین نہیں دیکھا۔کہنے لگے میں اور مولانا ضامرانی افغانستان میں بھی ہم سفر رہے ہیں۔ میں نے ان جیسا صابر، حلیم الطبع اور متواضع اور علمی صلاحیت والا کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ پھر وہ طلبا ءکی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اس زمانے میں سلف صالحین کی سیرت جیسا انسان ہم دیکھیں تو آپ مولانا عبدالغفار کو دیکھ لیں۔ وہ اسلاف کی سی خصلتوں والے عالم ہیں۔ مولانا عبدالغفار ضامرانی کے دو گھر تھے، ایک کراچی میں اور دوسرا ضامران میں۔ دونوں گھر نہایت سادہ تھے۔ان کا دروازہ ہمیشہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہتا تھا۔ بلا تکلف سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور کھانے کے دوران خوش کلامی بھی کرتے رہتے۔سفر کے دوران بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہنے کی بجائے مساجد میں ٹھہرنے کو ترجیح دیتے۔ تبلیغی فرائض بھی ساتھ ساتھ انجام دیتے رہتے۔ شفقت و رحم دلی مولانا عبدالغفار ضامرانی اپنے مدرسے کے طلبا ءپر بڑے مہربان اور شفیق تھے۔ زیادہ تر مدرسے میں رہتے تھے۔ طلباءکے کھانے کا خاص طورسے خیال رکھتے۔ ایسا تو نہیں کہ میرےگھر میں اچھا کھانا پکے اور طلباء میرے گھر سے کم معیار کا کھانا کھا رہے ہوں۔ طلبا ءکے ساتھ ہی اکثر وقت گزارتے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ رمضان المبارک میں سب سے پہلےطلبا ءکے لیے افطاری کا اہتمام کرتے پھر اپنے گھر والوں کی طرف متوجہ ہوتے۔ آخری دنوں میں مولانا عبدالغفار ضامرانی کی بینائی اس حد تک کم ہوگئی تھی کہ انھیں اپنی ضروریات کے لیے ایک خادم کی حاجت پیش آگئی تھی۔ لیکن جو کام خادم کے بغیرہو سکتا، وہ خود ہی کر لیتے۔ زہدو تقویٰ مولانا ضامرانی زاہد و عابد اور قائم اللیل تھے۔اشراق کی نماز کے پابند تھے۔ پیر اور جمعرات کا |