آہستہ آہستہ ذکری ٹولے نے مسلمانوں کے دینی جوش و جذبے کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور ذکری نوجوان سو چنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمارا دین جعلی تو نہیں ہے؟اس سوچ کے پیدا ہوتے ہیں ہزاروں ذکری نوجوان اسلام کی آغوش میں آگئے۔بہرحال اب ذکری اختلافات کا شکارہو کررہ گئے اور بعض شیعہ حضرات میں ضم ہو گئے ہیں اور بعض نے مہدویت جیسا عقیدہ اپنا لیا ہے۔ مولانا ضامرانی بحیثیت داعئ دین مولانا عبدالغفار ضامرانی کی ساری زندگی دعوت و جہاد میں گزری۔ تبلیغ دین ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔دوران تعلیم مدرسے سے جب انھیں چھٹیاں ملتیں تو ان چھٹیوں کو غنیمت جانتے اور دعوتی کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی دینی تربیت اور اصلاح عقائد کی طرف متوجہ ہوتے۔ گدھےپر سوار ہو کر ضامران کے سارے علاقے میں پھرتے اور جہاں بھی کچھ لوگ کھڑے ملتے یا کھیتی باڑی کر رہے ہوتے انھیں اللہ کے دین کی باتیں سناتے۔اس طرح ان کا شہرہ بطور ایک داعیٔ دین پورے بلوچستان میں پھیل گیا تھا۔ متحمل مزاج مبلغ ضامرانی متحمل مزاج تھے اور اپنے مخالفین سے کبھی قطع تعلق نہ کرتے تھے۔ بلکہ ان کے اندر رہتے ہوئے اصلاح و تربیت کاکام کرتے۔ کبھی مصلحت کے تحت حق بات سے گریزنہ کرتے۔ جب بھی حق بات کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی ببا نگ دہل اور بلا خوف و خطر اس کا اظہار فرمایا۔ تربت میں جب تحریک تحفظ ختم نبوت جاری تھی، اُن دنوں مولانا عبدالغفارضامرانی نے ذکر ی مذہب کے بارے میں نہایت مؤثر تقریر فرمائی اور ذکری مذہب والوں کو بڑے پیارے انداز سےحقیقت حال سے آگاہ فرمایا:اس تقریر کا ہر ذکری مذہب والے نے اچھا اثر لیا۔ اوصاف حمیدہ مولانا عبدالغفار ضامرانی متواضع اور معاملہ فہم عالم تھے۔ جن لوگوں کو مولانا ضامرانی سے ملنے کا موقع ملا ہے وہی ان کی معاملہ فہمی سے باخبر ہو سکتے ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں جب طلبا ءنے اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی تو اس تنظیم کے زیر اہتمام نئےطلباء کو استقبالیہ دیا جاتا تھا اور فارغ التحصیل ہونے والوں کو الوداعی تقریب میں خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ اس تقریب میں مہمان خصوصی مصری عالم دین ڈاکٹر عاصم القریوتی تھے۔اب یہ استاذ |