ذکری فتنے سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔علماء کے وفد سے ملاقات کے بعدضیاء الحق نے تربت کی جامع مسجد میں کھڑے ہوکر ان علماء سے کہا کہ میں دو ہفتے کے اندراندر کسی عدالت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکال لوں گا۔مگرضیاء الحق یہ وعدہ پورا نہ کرسکے۔اس طرح علماء نے دوبارہ اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت 1981ء میں مولانا عبدالخالق عرب امارات کے لیے روانہ ہوگئے تو شیخ ضامرانی عرب امارات سے واپس ضامران تشریف لے آئے۔انھوں نے یہاں تشریف لاتے ہی مولانا رحمت اللہ پنجگوری کے مدرسے میں تحفظ ختم نبوت کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا۔ مولانا عبدالغفار ضامرانی میں قائدانہ صلاحیت، بردباری، اخلاص وللٰہیت دیکھ کر تمام علمائے احناف نے ان کو مجلس تحفظ ختم نبوت کاامیر منتخب کرلیا۔یہاں کسی کو حنفی اور اہلحدیث کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ان کے سامنے صرف ذکری فرقے کا استیصال تھا اور بس! مولانا ضامرانی نے اس تحریک کا منصب امارت سنبھالا تو تحریک کو سرگرم کردیا۔تربت شہر اور اس کے علاقے تحریک کا مرکز تھے۔ہر طرف جلسے جلوس، تقریریں اور مظاہرے ہونے لگے۔ اس تحریک سے بوکھلا کر ذکریوں نے خطیب مکران مولانا محمدالیاس کے مدرسہ پر حملہ کردیا۔اس حملے نے مسلمانوں کو جہادی ماحول فراہم کردیا اور ان کے کئی گروپ بن گئے اورعسکری تربیت لینے لگے۔ مولانا الیاس کے مدرسے پر حملے کے ردّ عمل میں لوگوں نے ذکریوں کے مرکز کلگ پر مسلح حملہ کیا۔اس طرح جعلی حج کا مرکز کوہِ مراد بھی حملوں کی زد میں آگیا۔ ہرسال ذکری فرقہ رمضان المبارک میں کوہِ مراد پر رسوم حج منعقد کرتا تھا۔ مکران ڈویژن میں دفعہ 144 لگادی جاتی تھی۔حکومت مکمل طور پر ذکریوں کی پشت پناہی کرتی تھی۔دفعہ 144 کا اطلاق صرف اسلحے پر ہی نہ تھا بلکہ ہرداڑھی والے پر بھی تھا۔کوئی داڑھی والا، جبہ ودستار پہنے اور عالمانہ وضع قطع بنائے ان کے علاقوں کی طرف نہیں جاسکتا تھا۔ان ایام میں ختم نبوت کے جیالے ایک سیل رواں کی طرح تربت پہنچتے اور خود مولانا عبدالغفار ضامرانی کسی سواری پر یا پیدل چل کر تربت جاتے۔ایک دفعہ مولانا عبدالغفار ضامرانی پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔مولانا جامع مسجد تربت سےاپنے ساتھیوں کے باہر نکل رہے تھے کہ ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔مولانا ضامرانی تو محفوظ رہے مگر ان کا ایک ساتھی گولی لگنے سے زخمی ہوگیا۔ |