Maktaba Wahhabi

442 - 665
روزہ ہمیشہ رکھتے۔ قرآن کریم کی تلاوت پابندی سے روزانہ کرتے۔تلاوت میں تدبر و تفکر نمایاں ہوتا تھا۔ آخری دنوں میں ان کی بینائی جاتی رہی تو قرآن کریم کثرت سے پڑھنے لگے اور اکثر رویا کرتے تھے۔ باجماعت نماز پڑھتے۔شوگر کے شدید مرض میں بھی جب کہ ان کی صحت جواب دیتی جارہی تھی نماز باجماعت ادا کرتے رہے۔ رمضان المبارک میں پیرانہ سالی کے باوجودنماز تراویح ادا فرماتے۔ دوران نماز بوجہ شوگر پیشاب کی حاجت ہوجاتی تو فوراً دوبارہ وضو کر کے نماز میں شامل ہو جاتے۔ مولانا ضامرانی کے اساتذہ مولانا عبدالغفار ضامرانی کے اساتذہ کی فہرست بہت وسیع ہے۔ان میں حنفی بھی شامل ہیں اور اہل ھدیث بھی۔پاکستانی بھی ہیں اور عرب بھی۔ ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں: مولانا نور محمد یوسف بنوری، مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا عبدالغنی جاجروی، مولانا حافظ عبدالستاردہلوی، شیخ عبدالعزیز بن باز، علامہ ناصر الدین البانی، شیخ صالح العثیمین، شیخ عبدالحسن العباد، شیخ محمد امین شنقیطی، پیر سید بدیع الدین شاہ راشدی، شیخ عطیہ سالم مصری، شیخ ابو بکر الجزائری، شیخ عبدالکریم مراد بلوچی، ڈاکٹر ربیع بن ہادی، تلامذہ مولانا عبدالغفار ضامرانی کے تلامذہ کرام کی تعداد کا اندازہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ان کے علاقے میں بھی بے شمار حضرات نے ان سے حصول علم کیا اور متحدہ عرب امارات میں بھی بہت سے تشنگان علوم نے ان کے سامنے زانوئے شاگردی طے کیے۔ ان میں سے چند حضرات کےنام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔ مولانا سلیم اسحاق فاضل مدینہ یونیورسٹی، مولانا عزیز الرحمٰن ضامرانی، مولانا عبدالتواب فاضل مدینہ یونیورسٹی، شیخ الحدیث مفتی حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبدالغنی ضامرانی فاضل مدینہ یونیورسٹی، مولانا عبید اللہ مدنی۔ تصانیف مولانا عبدالغفار ضامرانی جہاں مشہور مدرس اور مقرر وواعظ تھے، وہاں بہت اچھے مصنف بھی تھے۔انھوں نے بلوچی، اُردو عربی تینوں زبانوں میں لکھا اور بہت لکھا۔ ان کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
Flag Counter