Maktaba Wahhabi

437 - 665
مولانا ضامرانی تربت میں سالانہ اہلحدیث کانفرنس کا انعقاد فرمایا کرتے تھے۔اس میں سلفی جماعتوں کے تمام قائدین ان کی دعوت پر تربت تشریف لے جاتے تھے۔یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بلوچستان میں اگر تحریک اہلحدیث کا کسی کو بانی کہا جائے تو وہ مولانا عبدالغفارضامرانی ہیں۔ ایک تاریخی واقعہ یہ اُس دور کی بات ہے جب بلوچستان میں دینی مرکز کوئی نہ تھا اورجہالت کا دور دورہ تھا۔اس دور میں ایک شخص محمد اٹکی نامی ایران سے مکران وارد ہوا اور لوگوں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو اس نےنبی کہلانا شروع کیا۔لوگ اس دجال کی باتوں سے متاثر ہونےلگے یہ ذکری فرقے کا بانی بنا۔اس کے متعلق مولانا عبدالحق بلوچ نے ایک کتاب لکھی ہے۔اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ”(محمد اٹکی مکران آئے) اس وقت ایران کے سرباز علاقے پر بلیدی خاندان کے لوگ حکومت کررہے تھے۔کیج تربت کے علاقے پر ملکوں کی حکومت تھی۔پنجگور پر ملک اور گچکی براجمان تھے۔یہ نئے نئے ہندوستان سے یہاں آئے تھے اور ہندوؤں کی نسل سے تھے۔یہ لوگ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔بلیدی اور ملک ایک دوسرے کے معاون تھے۔یہ سب لوگ ذکری مذہب کے پیروکار ہوگئے تھے۔اس طرح ذکری بہت معروف ہوگئے۔ان تمام قبیلوں میں اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی تھی۔ گچکی پورے مکران پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔بلیدی ان کے سب سے بڑے حریف تھے اور مکران پر حکمران تھے۔ان کو جب گچکییوں کی ریشہ دوانیوں سے خطرہ ہوا تو انھوں نے آس پاس کے مسلم حکمرانوں سے تعلقات بڑھائے اور دوبارہ اسلام قبول کرنا چاہا۔ انھوں نے نادر شاہ افشار سے راہ ورسم بڑھائے۔چونکہ علاقے کے سارے لوگ ذکری ہوگئے تھے اس لیے ملک دینار ولد ملا مراد گچکی کو موقع مل گیا، اس نے عوام کے ساتھ ملا کر بلیدیوں کے آخری نو مسلم فرماں رواشیخ بلال کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اس کے مرتد ہونے کا اعلان کردیا۔اس اعلان سے عوام مشتعل ہوگئے۔ انھوں نے تمپ کے قلعے کا محاصرہ کرکے 1723ء میں اسے قتل کردیا۔یوں مکران پر گچکی خاندان کی حکومت قائم ہوگئی۔یہاں سے تشدد کا ایک نیا باب شروع ہوگیا، کچھ مسلمان نادر شاہ کی پناہ میں چلے گئے اور کچھ خوانین قلات کے قلمرو کی طرف ہجرت کرگئے۔ نادرشاہ نے اسی سال 1723ء میں تقی خان کی زیر کمان ایک لشکر تیار کرکے کیچ پر حملہ کرادیا۔نادرشاہی فوج سے نو سو اورملک دینار کے لشکر سے سات سو آدمی اس جنگ
Flag Counter