کبھی ناگواری کا اظہار نہ فرمایا۔ حکیمانہ انداز مولانا عبدالغفار ضامرانی تنگ نظر اہلحدیث نہیں تھے بلکہ پر حکمت شخصیت کے مالک تھے۔اور ان کا اندازِ تبلیغ حکیمانہ تھا۔اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ مثال ہی کافی ہے کہ مولانا نے جو مدرسہ قائم فرمایا تھا اس میں اکثریت حنفی اساتذہ کی تھی اور یہ اساتذہ بڑا متشددانہ ذہن رکھتے تھے۔مسلک کے بارے میں وہ مولانا ضامرانی کے خلاف باتیں کرتے رہتے تھے اور کسی نہ کسی ذریعے سے ان باتوں کا علم مولانا کو ہوجاتا تھا۔مگر مولانا ان اساتذہ کو احساس تک نہ دلاتے اور نہ انھیں مدرسے سے نکالنے کا کبھی سوچا۔ ان اساتذہ میں سے ایک مولانا عبدالرزاق خارانی تھے۔جو جامعہ اشرفیہ لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ان کا کہناتھا کہ میں ایک متعصب حنفی تھا۔اپنے آپ کو ایک بڑا عالم سمجھتا تھا۔لیکن جب میں نے مولانا ضامرانی کی مجالس میں بیٹھنا شروع کیا تو مختلف مسائل ومباحث کے دوران مجھے اپنی علمی سطحیت کا اندازہ ہوا اور پتا چلاکہ مجھ میں اور مولانا ضامرانی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔میں ان کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کی علمی فوقیت سے ہمیشہ مرعوب رہا۔ان کے اخلاق ِحسنہ اور انکسار وعجز کے آگے میری ایک نہ چلی، بالآخر میں نے مسلک اہلحدیث اختیار کرکے تقلید شخصی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔مولانا عبدلرزاق خارانی اس وقت اپنے علاقے خاران میں خالص توحید وسنت کی دعوت کو پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح کے ایک عالم مولانا عبدالمالک تھے جو بحث ومباحثہ میں شکست کے بعد اہلحدیث ہوگئے تھے۔ مولانا عبدالغفار ضامرانی نے بڑی تگ ودود اور محنت سے دین حق کو پھیلایا۔ ان کا دائرہ کار صرف مکران تک محدود نہ تھا۔بلکہ دوردراز کے علاقوں میں شمع توحید کو فروزاں کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔کراچی بھی تشریف لے جاتے تھے۔ان کا قیام المکہ ہوٹل میں ہوتا تھا۔اس ہوٹل کے مینیجر حاجی عبدالحکیم تھے۔مولانا ضامرانی جب بھی ان کے ہاں ٹھہرتے تو انھیں کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنے کے لیے ضرور دیتے۔حاجی صاحب بڑے درد اور شریف النفس تھے اور حنفی مسلک پر کار بند تھے۔مطالعہ کرکے اہلحدیث کی طرف مائل ہوئے۔پھر نہ صرف خود اہلحدیث ہوئے بلکہ اپنے اہلخانہ کو بھی اہلحدیث بنایا۔انھوں نے جس کتاب سے زیادہ اثر لیا اس کتاب کا نام(النجخبه في ترجمة الخطبة) تھا۔ |