Maktaba Wahhabi

435 - 665
مولانا عبدالغفار ضامرانی کے لیے یہ بڑا کٹھن وقت تھا۔انھوں نے دیکھا کہ ایک کافر کو مسلمان کرلینا آسان ہے مگر ایک مسلمان کی اصلاح کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مولانا ممدوح نے تحریک اہلحدیث کی بنیاد رکھتے ہی جوش وجذبے سے دعوتِ دین دینا شروع کی اورمخالفوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے لوگوں کو ان فتنوں کی شرانگیزیوں سے آگاہ کرتے رہے۔شرک اور پیرپرستی عام تھی۔پورا معاشرہ ان خرافات میں جکڑا ہوا تھا۔لیکن ایک تنہا شخص اس معاشرے کی اصلاح کابیڑا اٹھا رہا ہے اور سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے۔ وعظ وتبلیغ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ عبدالغفار نامی شخص اپنے آپ کو اہلحدیث کہلاتا ہے تو وہ اس معاملے میں دلچسپی لینے لگے اور انھیں اہلحدیث لفظ کے بارے میں پتاچلا کہ یہ بھی ایک مسلک ہے۔اور معلوم کرنے لگے کہ اس کے پیروکار کون لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں، ان کا منشور اور ان کی دعوت کیا ہے؟اس قسم کے حالات میں جب لوگ کسی کی دعوت وتبلیغ کی نوعیت سمجھنا چاہتے ہوں تو پھر داعی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ صبروتحمل سے ان کی باتیں سنے۔ان کے سوالوں کے جواب دے اور حوصلے اورعقل مندی سے اپنی دعوت پیش کرے۔جب دور دور تک جہالت وبے دینی، رسوم ورواج کا دور دورہ ہوتو داعی کے لیے حکمت ودانائی، صبر وضبط اور خلاق حسنہ کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے نیز دلائل وبراہین اور خالصتاً علمی اصولوں کے مطابق اپنی دعوت کو پیش کرنا لازمی قرارپاتا ہے۔مولانا عبدالغفار ضامرانی چونکہ اپنے علم میں راسخ تھے اور انھوں نے قرآن وحدیث اورفقہ میں دسترس حاصل کرلی تھی۔اس لیے داعی کے لیے جوخوبیاں ہونی چاہئیں، وہ خوبیاں ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔مولانا کے مخالف بھی ان کے علمی مقام ومرتبے کے قائل تھے۔ ان کے وعظ اصلاحی قسم کے ہوتے تھے۔شرک وبدعت کی مخالفت اس انداز سے کرتے کہ قرآن وحدیث، حضرات صحابہ وائمہ عظام کے اقوال کے انبار لگادیتے اور واضح دلیلوں سے خلافِ شرع رسول کا رّد کرتے۔ان کا طریقہ پُرحکمت اوراندازِتخاطب بیٹھا ہوتا تھا۔کبھی ترش زبان سے وعظ نہ کیا بلکہ پیارے انداز سے مخاطب ہوتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کا وعظ بڑے شوق سے سنتے تھے۔ان کی باتوں کو جھٹلانا لوگوں کے لیے انتہائی مشکل ہوتا تھا۔جہاں لوگ ان کے وعظ سے متاثر تھے وہاں دوسرے مسالک کے علماء ان کی مخالفت میں بھی پیش پیش تھے۔مولانا ضامرانی کو اس سلسلے میں بڑی اذیتوں سے گزرنا پڑا اور ان اذیتوں کو انھوں نے بڑے حوصلے سے برداشت کیا، اور
Flag Counter