وطن جائیں گے تو آپ سے مراعات واپس لے لی جائیں گے اور صرف بارہ سو سعودی ریال آپ کو تنخواہ دی جائے گی۔ مولانا عبدالغفار ضامرانی نے بخوشی مراعات واپس کرنا منظور کیا اور اپنے وطن ضامرانی کے خشک وبے آب وگیاہ پہاڑوں میں رہنے کو ترجیح دی۔ یہ مراعات چھوڑنے کا مقصد صرف دین کی خدمت کے پیش نظر تھا۔مولانا عبدالغفار ضامرانی کی سوچ یہ تھی کہ یہ کہاں دانشمندی ہے کہ میں اتنی دولت جمع کرتا رہوں اور اپنی زندگی کی فکر میں لگا رہوں اور میرے علاقے کے لوگ یوں ہی شرک وبدعات اور جہالت وگمراہی کی زندگی بسر کرتے رہیں۔لہذا انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ اپنے علاقے میں جاکر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیں۔کہا کرتے تھے کہ تنخواہیں تو غیر مسلم بھی لیتے ہیں۔لیکن ایک مسلمان اور عالم دین ہونے کہ وجہ سے ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔اس لیے اپنے وطن لوٹ آئے۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی طرف سے مولانا عبدالغفار ضامرانی کو حکم ملا کہ آپ پہلے جامعہ الاسلامیہ(جامعہ رحمانیہ) لاہور میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، ا س کے بعد اپنے علاقے ضامران جائیں۔چنانچہ مولانا نے اسی طرح کیا۔ بلوچستان میں تحریک اہلحدیث مولانا عبدالغفار ضامرانی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ جانے سے قبل بھی فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے تھے۔اس دوران میں ان کے بعض علمائے احناف سے مناظرے اور مباحثے بھی ہوئے، جن میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی سے ہمکنار کیا۔لیکن جب مولانا عبدالغفار جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت حاصل کرکے اپنے علاقے میں تشریف لائے توان مناظروں اور مباحثوں میں شدت آگئی۔اس وقت ضامران میں ان کو بڑے چیلنج نظر آرہے تھے اور کئی محاذوں پر انھیں مقابلہ کرنا تھا۔پہلے تو انھیں ذکری فرقہ والوں سے سامنا کرنا تھا۔پھر تقلیدی جمود کا محاذ تھا۔علاوہ ازیں اس علاقے میں کمیونزم کا زور تھا۔ کمیونزم ضامران کے اردگرد میں بڑی تیزی سے ابھر رہا تھا اور نوجوانوں کی اکثریت کمیونزم کی لپیٹ میں آگئی تھی اور اس کے فروغ میں یہ نوجوان سرگرم ہونے لگے تھے۔ مولانا عبدالغفار ضامرانی ان فتنوں کا مقابلہ کرنے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے میدان میں کود پڑے اور تحریک اہلحدیث کے نام سے ایک جماعت کی داغ بیل ڈال دی۔لیکن اس وقت وہاں ایک بھی اہلحدیث نہ تھا۔ |