جاسکے۔اب شیخ سالم المطر نے تیسری بار پھر ان کے لیے ویزا لگوایا تو مولانا ضامرانی کے والد صاحب نے کہا کہ تم مدینہ یونیورسٹی چلے جاؤ، لہذا مولانا ضامرانی نے مدینہ یونیورسٹی کے لیے رخت سفر باندھا۔ابھی وہ ضامران کی حدود میں تھے کہ ان کے والد صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ مولانا ضامرانی نے والدصاحب کی وفات کی خبر سنی تو واپس گھ آکر ان کی تجہیز وتکفین کاسامان کیا اور اس فرض کی ادائیگی کے بعد مدینہ یونیورسٹی جانے کےلیے تیار ہوگئے۔اس وقت مولانا ضامرانی 36برس کوپہنچ گئے تھے۔مولانا ضامرانی جب مدینہ پہنچے اس وقت جامعہ اسلامیہ میں داخلے کے لیے ہر طالب علم کواپناڈاکٹری چیک اپ تقریباً سارا لباس اتارکر کرانا پڑتا تھا۔شرعی اعتبار سے یہ نہایت غلط فعل تھا۔اس لیے مولانا ضامرانی نے یہ چیک اپ کرانےسے انکار کردیا۔بات زیادہ بڑھی تو اس کے حل کے لیے مسئلہ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چلا گیا۔شیخ موصوف نے یونیورسٹی کےاس قانون سےلا علمی کااظہار کیا اور اسے سخت ناپسندیدہ قراردیا۔جب ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کو پتا چلا کہ بلوچستان کے ایک طالب علم عبدالغفار ضامرانی نے اس قانون کو نہیں مانا اور جامعہ اسلامیہ میں پڑھنے سے انکار کردیاہے تو انھوں نے اس قانون کو نہ صرف ختم کرادیا بلکہ مولانا ضامرانی کو ان کی دینی حمیت کے باعث بے حد مستحق احترام گردانا۔ مولانا ضامرانی نے مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے جب درخواست جمع کروائی تو اس درخواست کے ساتھ دارالعلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کی سند بھی لگائی۔اس سند میں درج تھا کہ اس طالب علم نےایک سال میں حدیث کی نوعدد کتابیں پڑھی ہیں۔شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نوکتب والی عبارت پڑھ کر ششدر رہ گئے اور اس سند کو انھوں نے غلط قرار دے دیا۔اب مولانا ضامرانی نے اسے صحیح قراردینے کے لیے شیخ سالم المطر اور شیخ مولانا عبدالکریم البلوشی کی گواہیاں پیش کیں۔ گواہی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ برصغیر کے حنفی مدارس ایک سال میں حدیث مبارک کی نو کتابیں بطور دورہ پڑھا دیتے ہیں۔ اس پر شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: (وَاللّٰهُ ظَلَمُوا عَلٰي حَديْثِ رَسُولُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم) (واللہ!یہ توحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ہے۔) چنانچہ مولانا ضامرانی کو دوسری کلاس میں داخلہ مل گیا۔مولانا ضامرانی نےتقریباً نو برس جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کی اور کلیۃ الشریعہ سے 1396ھ(1976ء) میں فارغ التحصیل ہوئے۔ جامعہ اسلامیہ کی طرف سے قانون منظور ہواتھا کہ تمام ممالک کے طلباء اپنے میں سے ایک |