Maktaba Wahhabi

430 - 665
مولانا ضامرانی کے گھر والوں نے جب انھیں گھر میں دیکھا تو انھیں پہچانیے میں وقت محسوس ہوئی۔مولانا ضامرانی ایک چٹائی پر اپنے گھر سے باہر ہی بیٹھ گئے۔ان کے والد صاحب نے مولانا ضامرانی کو مہمان سمجھ کر ان سے سلام لیا اورسوچنے لگے کہ یہ کون شخص ہے جواتنا شریف بن کر ہمارے گھر کے باہر آبیٹھا ہے۔آخر ان کی بڑی بہن نے بھائی کو پہچان لیا اور والدہ کو کہنے لگیں کہ مجھے لگتا ہے جیسے یہ محمد جان ہے(شیخ ضامرانی کا پہلا اور گھریلو نام یہی تھا)ماں نے بھی تصدیق کردی اور ان کو پہچان لیا۔پھر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔اس برس مولانا کی شادی ہوگئی۔تھوڑے ہی عرصے بعد وہ کراچی کے مدرسہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں پڑھنے کے لیے روانہ ہوگئے۔چند ماہ بعد مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ میں داخلہ لے کر یہاں پڑھنا شروع کردیا۔اس مدرسے میں ہرجمعرات کو طلباء کی تقریری تربیت کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ مولانا ضامرانی کا ایک دوست محمد امین اس تربیتی تقریر میں تصوف پر تقریر کررہاتھا۔تقریر کرتے ہوئے اس نے ایک بزرگ بشرحانی کے متعلق واقعہ سنایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین کا بڑا احترام کرتے تھے اورکبھی اس پر جوتے پہن کر نہیں چلتے تھے۔ دورانِ تقریر مولانا ضامرانی کھڑے ہوگئے اور اپنےاستاد صاحب سے اجازت مانگی کہ میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔استاد نے اجازت دے دی۔مولانا ضامرانی نے فرمایا۔عزیز بھائیو!محمد امین نے جو یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ بشرحانی زمین کے احترام میں جوتے پہن کر نہیں چلتے تھے۔میں پوچھناچاہتا ہوں کہ یہ قضائے حاجت کے لیے کدھر کا رخ کرتے تھے؟پوری زندگی انھوں نےقضائے حاجت کس طرح کی؟ اس پر سب طلباء ہنسنے لگے۔مقرر نے کہاکہ یہ وہابی ایسے ہی نکتے اٹھاتے رہتے ہیں اور بزرگوں کا یہ لوگ احترام نہیں کرتے۔یہ بات استاد صاحب نے سنی تو فرمانے لگے عبدالغفار صحیح کہتا ہے۔صوفیاء سے متعلق ایسی باتیں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مولانا عبدالغفار ضامرانی نے دورۂ حدیث کے لیے بنوری ٹاؤن میں مولانا محمد یوسف بنوری اور مفتی والی حسن صاحب کی خدمت میں حاضری دی اور1957ء میں عالمیہ کی سند ممتاز نمبروں میں حاصل کی۔ اہلحدیث مسلک اختیار کرنے کے بعدحنفیوں کے ہاں تعلیم حاصل کرنے کی انھوں نے یہ وضاحت بیان فرمائی کہ میں حنفی مذہب سے مکمل آگاہ ہونا چاہتا تھا۔اس دوران میں اپنے اساتذہ سے کھل کر بحث بھی کرلیتا تھا۔
Flag Counter