Maktaba Wahhabi

429 - 665
کے سپرد کردی۔چنانچہ یہ کافیہ پڑھانے لگے۔ چھٹیاں ہوئیں تو حیدر آباد آگئے۔یہاں آسکانی خاندان کے ایک فرد موسیٰ ایرانی امام مسجد تھے۔ اتفاقاً وہ بیمار ہو گئے تو مولانا عبدالغفار کو ان کی جگہ امام مقرر کردیا گیا۔ اس دوران ایک نمازی نے ان کو ایک کتاب(جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ) (تصنیف مفتی احمد یار خاں گجراتی بریلوی) پڑھنے کو دی۔یہ اس وقت حنفی تھے اور صرف نمازیں پڑھاتے تھے۔ باقی تمام دن اس کتاب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔مطالعے کے دوران یہ بات بخوبی سمجھ میں آگئی کہ اس کتاب میں قرآن و حدیث کی من مانی تاویلیں کی گئی ہیں۔ چنانچہ یہ ان باتوں پر گہرائی سے غور کرنے لگے۔ آخر اس نتیجے پر پہنچےکہ یہ سب تقلید شخصی کے کار نامے ہیں۔ اس کے بعد مسلک محدثین کے قریب ہونے کا موقع ملا۔جب مسلک محدثین کے متعلق تحقیق کی تو پتا یہ چلا کہ یہ وہ مسلک ہے جو پاکستان میں اہل حدیث خلیج کے عرب ممالک میں سلفی اور مصر اور سوڈان میں انصارالسنہ کے نام سے موسوم ہے۔ یوں یہ کتاب اپنے نام کی نسبت سے مولانا عبدالغفار کے لیے(جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ)ثابت ہوئی اور وہ اہل حدیث ہو گئے۔ مسلک اہل حدیث قبول کرنے کے بعد اپنے والد صاحب کے نام خط لکھا تو اس میں اپنا نام اس طرح تحریر کیا”عبدالغفار ضامرانی اہل حدیث۔“ والد صاحب اس خط سے پریشان ہو گئے اور فکر مند ہوئے کہ پتا نہیں اہل حدیث کیا ہوتا ہے۔کہیں میرا بیٹا گمراہ تو نہیں ہو گیا ہے؟چنانچہ وہ یہ خط لے کر علامہ نور محمد ضامرانی کے پاس گئے اور انھیں”اہل حدیث “لفظ کے متعلق پوچھا تو علامہ نور محمد صاحب نے کہا خوش ہو جاؤ تمھارے بیٹے نے جو مسلک اختیار کیا ہے وہ تمام مسالک سے بہترہے۔ اہل حدیث مسلک اختیار کرنے کے بعد مولانا عبدالغفار ضامرانی نے کراچی کے کسی اہل حدیث مدرسے میں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن مشکل یہ بنی کہ انھیں کراچی میں کسی اہل حدیث مدرسے کا پتا نہ تھا۔وہ حیدرآباد میں بعض اہل حدیث احباب سے ملےتو ان لوگوں نے انھیں مدرسہ دارالسلام برنس روڈ کا پتا دیا، چنانچہ مولانا ضامرانی کراچی چلے گئے اور اس مدرسے میں پڑھنے لگے۔ مولانا ضامرانی کو یہاں مولانا عبدالستار دہلوی اور کچھ دیگر علمائے کرام سے کسب فیض کا موقع ملا۔پھر کچھ مدت بعد یہاں سے اپنے گاؤں منتقل ہوگئے۔مولانا ضامرانی جب گھر سے نکلے تھے تو اُس وقت ان کے چہرے پرداڑھی نہ تھی اور چھوٹی عمر کے تھے یعنی سولہ سترہ برس کی عمر تھی۔ لیکن جب علوم دینیہ حاصل کر کے اپنے لوٹے تو ان کے چہرےپر سنت رسول (ریش مبارک) نمایاں تھی۔
Flag Counter