تیار ہو گئے۔ عربستان کا پہلا سفر 1951ءمیں یہ لوگ عربستان کو روانہ ہوئے۔مسقط جانے کے لیے گوادر سے کشتی پر سوار ہوئے۔وہ گرمیوں کا موسم تھا۔سفرکا آغاز کیے چند لمحے ہوئے تھے کہ سمندرکی موجوں نےسر اٹھانا شروع کردیا اوران کی طرف بڑھنےلگیں۔ موجیں اتنی بلند تھیں کہ ان کی کشتی ڈولنے لگی۔ کشتی کے سواروں میں چند پنجابی او ر سندھی لوگ بھی تھے جو حج کے ارادے سے عربستان جا رہے تھے۔ یہ لوگ مصیبت کی اس گھڑی میں قلندروں اور بزر گوں کو پکارنے لگے۔ عبدالغفار کے ساتھی کہنے لگے کہ ان لوگوں کا ایسے لمحات میں غیراللہ کو مدد کے لیے پکارنا ہمارے غرق ہونے کے لیے کافی ہے۔نام کے یہ مسلمان تو مکے کے ان مشرکوں کو بھی مات کر چکے ہیں جو مصیبت کے وقت اللہ وحدہ لاشریک کو پکارا کرتے تھے۔ ان لوگوں کا حج بھی ہماری سمجھ سے بالا تھا۔ تمام دن یہ لوگ سمندری موجوں کے تھپیڑوں کی زد میں رہے اور اپنے مالک حقیقی کا نام پکارتے رہے۔ پھر اللہ کے فضل و کرم سے مسقط کے ساحل کو جا لگے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سربہ سجود ہو گئے۔ عبدالغفار اور ان کے ساتھی یہاں فوج میں بھرتی ہوگئے۔ اس وقت عبدالغفار کی عمر سولہ برس سے زیادہ نہ تھی۔ تین چار مہینے فوج میں رہے۔ پھر ایک فوجی افسر سے چپقلش ہو گئی تو فوج سے نکال دیے گئے۔ فوج سے نکل جانا ان کے لیے بہتر ثابت ہوا۔یعنی اللہ تعالیٰ ان سے دین کا کام لینا چاہتا تھا۔مسقط سے واپس گوادر آگئے۔ پاکستان واپسی: مسلک محدثین سےمحبت گوادر سے اپنے گھر جانے کے بجائے عبدالغفارلسبیلہ چلے گئے۔ یہاں ایک بلوچ قاضی تھے، جن کا نام بشیر احمد تھا۔ عبدالغفار نے ان سے بوستان سعدی اور کچھ اور کتابیں پڑھیں۔پھر کراچی آگئے اور وہاں مدرسہ احرار الاسلام میں پڑھنا شروع کیا۔ اس مدرسے کے مہتمم کراچی کے معروف بلوچ عالم دین مولوی محمد عمر تھے۔دو سال یہاں پڑھنے کے بعد جام صادق آباد گئے۔وہاں ایک مدرسے میں داخل ہوگئے۔پھر ٹنڈوالٰہ یار کے ایک مدرسے میں کچھ مدت پڑھا۔اس دوران ان مدراس میں مولانا عبدالغفار نے مندرجہ ذیل دوسری کتابیں پڑھیں۔ قدوری، نور الایضاح، ارشاد الصرف، مفید الطالبین، کنز الدقائق، کافیہ، اصول شاشی، شرح تہذیب وغیرہ۔ کافیہ تو اتنا ازبرہو گیا کہ استاد صاحب نے طلبا کو کافیہ پڑھانے کی ذمہ داری انہی |