Maktaba Wahhabi

427 - 665
مولانا عبدالغفارضامرانی بچپن کی پڑھائی کے زمانے میں اپنے گھر کی بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ صبح سویرے خالہ سے قرآن مجید ناظرہ کا درس لے کردن کو یاد کرتے، پھررات کوعشاء کے بعد لکڑیاں جلا کر ان کی روشنی میں درس لیتے۔ اس طرح قرآن مجید ناظرہ مکمل ہو۔نو یا دس سال کی عمر میں انھیں علم دین حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس زمانے میں ان کے ہاں بلیدہ کے ایک مولوی عبدلغفور کہدانی آکر وعظ کہا کرتے تھے۔وہ ان کا وعظ بڑے شوق سے سنتے تھے، اس شوق کا یہ اثرہوا کہ ایک بار انھوں نے اور مولوی عبدالمجید اور عبدالجبار نے جوان کے ساتھ بکریاں چرایا کرتے تھے، آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں پڑھائی کے لیے علاقہ سندھ میں جانا چاہیے۔چنانچہ ایک دن بغیر بتائے تینوں گھر سے بھاگ نکلے اورپر دم کے علاقے تک آئے۔ لیکن ان کا ایک ساتھی عبدالجبار وہاں سخت بیمار پڑگیا، جس کی وجہ سے انھیں واپس گھرآنا پڑا۔کچھ دنوں کے بعد عبدالغفار پھر گھر سے بھاگ کر تربت جا پہنچے۔ اس وقت علامہ نور محمد ضامرانی تربت کے منصب قضا پر فائز تھے۔ عبدالغفار اُن کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں پڑھنے کے لیے آیا ہوں۔ چونکہ وہ قاضی تھے اس لیے باقاعدہ پڑھانے کا انھیں وقت نہیں ملتا تھا۔ انھوں نےعبدالغفار کو ملا سعید نامی ایک عالم کے پاس بھیجااور انھیں حکم دیا کہ وہ اس لڑکے کو باقاعدہ پڑھائیں۔ چنانچہ ملا سعید سے انھوں نے چند کتابیں پڑھیں۔اسی دوران ان کے والد صاحب ان کی تلاش میں تربت آئے۔اور مولانا محمد حیات اور نور محمد ضامرانی سے ان کے بارے میں دریافت کیا۔انھوں نے فرمایا کہ وہ ملا سعید شاہی تمپ والے کے پاس پڑھ رہے ہیں۔وہ یہاں تشریف لائے اور بیٹے سے فرمانے لگے کہ کیا سچ مچ تمھارا پڑھنے کا ارادہ ہے؟انھوں نے عرض کیا ہاں یہی ارادہ ہے۔ یہ سن کروہ بہت خوش ہوئے اور واپس ضامران چلے گئے۔ چند مہینے انھوں نے ملا سعید کےہاں گزارے، پھر دوبارہ علامہ نور محمد کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے اپنے پاس ہی رکھیں۔ یاد رہے کہ تربت میں ایک اور مولانا نور محمد رہا کرتے تھے۔ موجودہ جامع مسجد کے مشرقی جانب ان کا ایک مدرسہ تھا۔وہاں اسکول کے نصاب کے مطابق پڑھایا جاتا تھا۔ مولانا نور محمد نے عبدالغفار کو اس مدرسے میں داخل کرادیا۔ تقریباً دو سال کا عرصہ عبدلغفار نے وہاں گزارا اور ساتھ ساتھ علامہ نور محمد ضامرانی سے بھی استفادہ کرتے رہے۔ پھر چھٹیوں میں ضامران چلے گئے اور چھٹیوں کے بعد اپنے قریبی عزیز خداداد صاحب کے ساتھ دوبارہ تربت کو روانہ ہوئے۔راستے میں ان کے ساتھی نے مشورہ دیا کہ عربستان جاکر پڑھنا چاہیے۔وہاں پڑھائی بھی یہاں کی نسبت بہترہےاور ان کے چچا رستم بھی وہیں ہیں۔انھوں نے عبدلغفارکا کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کرنے کی پیش کش کی۔یہ وہاں جانے کے لیے
Flag Counter