Maktaba Wahhabi

419 - 665
اس کے بعد وہ ایک دم خاموش ہوگئے اوران کی آنکھوں سے آنسو تیرنے لگے۔فرمایا: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ بہت اچھا ادارہ بن گیا ہے۔کئی استاد سینکڑوں طلباء کو تعلیم دیتے ہیں اورمیں ان کا خدمت گزار ہوں۔تم ایک مرتبہ ضرور آکر دیکھو۔لیکن افسوس ہے میں خواہش کے باوجود ان کی زندگی میں حاضر نہ ہوسکا۔ لاہور کے رہنے والے میرے ایک دوست جہلم میں سیشن جج تھے۔انھوں نے اور ان کی بیگم نے بھی مجھے کئی دفعہ بتایا کہ وہاں اہلحدیث کا بہت بڑا تدریسی ادارہ ہے اور شاندار مسجد ہے ہم لوگ نماز جمعہ وہیں پڑھتے ہیں۔تم وہاں آؤ، ہمارے پاس رہو اور وہ ادارہ دیکھو۔لیکن اسے سوئے اتفاق کہیے کہ میں جہلم نہ جاسکا۔ حافظ صاحب کے وہاں جانے سےقبل مولانا عبدالمجید دینانگری کے زمانےمیں تو کئی بار وہاں گیا۔ایک مرتبہ میں اور مولانامحمد حنیف ندوی دونوں گئے۔لیکن افسوس ہے حافظ عبدالغفور کی تشریف روی کے بعد جہلم جانے کا موقع میسر نہ آیا۔انھوں نے مجھے حاضری کی دعوت بھی دی اور دوستانہ شکوہ بھی کیا۔مگر میری سستی آڑے آئی اور جہلم جا کر ان سے ملنا نصیب نہ ہوا۔ وفات دن رات کی سخت محنت اور بھاگ دوڑنے ان کی صحت پر اثر ڈالا اور وہ بیمار ہوگئے اور پھر ایک بیماری نے کئی بیماریوں کو جنم دیا۔کچھ عرصہ تو انھوں نے بیماری کو زیادہ اہمیت نہ دی۔بالآخر بیماریوں کا ہجوم غالب آیا اور وہ نڈھال ہوکر چارپائی پر گرگئے۔بہت علاج کرائے لیکن”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ والی کیفیت ہوگئی۔ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں داخلے تک نوبت پہنچی۔وہ ضیاء الحق کا زمانہ حکمرانی تھا۔ضیاء الحق سےبراہ راست امام کعبۃ اللہ شیخ محمد بن سبیل نے رابطہ کرکے تاکید کی کہ حافظ عبدالغفور کا علاج ماہر ڈاکٹروں سے کرایا جائے۔چنانچہ ضیاءالحق نے ڈاکٹروں سے کہا لیکن وہ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ 15۔اکتوبر 1986ءکو ڈاکٹروں نے ان کے وارثوں کو انھیں واپس جہلم لے جانے کا مشورہ دیا۔یہ ڈاکٹروں کی طرف سے علاج کے سلسلے میں مایوسی کااظہار تھا۔اسی دن انھیں جہلم لایاگیا۔رات کو قدرے سکون رہا۔لیکن یہ سکون عارضی تھا۔بالآخر وقت مقرر آپہنچا۔16۔اکتوبر 1986ء(3۔صفر 1407ھ) کوجمعرات کے دن شام کے وقت ان کا انتقال ہوگیا۔اناللہ واناالیہ راجعون دوسرے دن 17۔اکتوبرکو جمعۃ المبارک کے بعدان کا جنازہ اٹھایا گیا۔ہرمکتب فکر کے بے
Flag Counter