جس انداز سے فرمایا۔جب وہ الفاظ یاد آتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب میرے پاس بیٹھے ہوئے فرمارہے ہیں۔اب ان کا دارالعلوم ان کی یاد تازہ کیے ہوئے ہے۔ ”بڑی خوبیوں کے انسان تھے۔کھلا ذہن، غیر متعصب اور مہمان نوازی ان پر ختم تھی۔“ شکوہ اور دعوت حافظ عبدالغفور جہلمی سے میری آخری ملاقات مال روڈ پر ٹولٹن مارکیٹ میں ہوئی۔میں صبح نو بجے کے قریب اپنے اس زمانے کے دفتر(ادارہ ثقافت اسلامیہ) جارہاتھا کہ ٹولٹن مارکیٹ میں عربی کے دوتین رسالے لینے کے لیے اخبارفروش کی دکان پر رکا۔اخبارخرید کر چند قدم آگے بڑھا تو دیکھا کہ مجھے دیکھ کر حافظ عبدالغفور کارسے اتررہے ہیں۔حسب عادت اور حسب معمول نہایت تپاک سے ملے۔وہی خندہ روئی، وہی آنکھوں کی چمک اور وہی لہجہ، جس سے ہم برسوں سے آشنا تھے۔ان کے ساتھ ایک اور نوجوان تھے۔لیکن اب اس نوجوان کا ناک نقشہ ذہن میں نہیں رہا۔ دوست کو دیکھ کر خوش ہونا اورایک خاص انداز سے ہنسنا ان کی فطرت میں داخل تھا، جسے ہم ان کے خلوص اور دلی محبت سےتعبیر کرسکتے ہیں۔ خیر وعافیت اور تصنیف وتالیف سے متعلق پوچھ کر، ہنستے ہوئے شکوے کے انداز میں کہاکہ آپ سے اتنا پرانا تعلق ہے کہ اس کے ماہ وسال کاحساب لگانامشکل ہے، لیکن آپ نے میرے پاس جہلم آنے اور میرا قائم کردہ تعلیمی ادارہ جامعہ علوم اثریہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔کیا آپ مجھے بھول گئے ہیں یامجھ سے کچھ ناراضی ہے؟ میں نے کہا:نہ میں آپ کو بھولا ہوں، نہ آپ سے کسی معاملے میں ناراض ہوں۔میں آپ سے بہت خوش ہوں، دوستوں سے آپ کے تعلیمی ادارے کے بارے میں بھی بہت کچھ معلوم ہوا ہے اورآپ کی تدریسی سرگرمیوں سے متعلق بھی بہت کچھ سننے میں آیا ہے۔لیکن یہ میری سستی ہے کہ میں حاضر نہیں ہوسکا۔ اس سے چند روز پیشتر مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کہ وہ کسی سلسلے میں حافظ صاحب کے پاس گئے تھے اورانھوں نے ان کی بہت خدمت کی تھی، کسی معاملے میں کچھ مالی تعاون بھی کیا تھا۔میں نے حافظ صاحب سے ہنستے ہوئےعرض کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے آپ اپنے پاس آنے والوں سے اتنا اچھا سلو ک کرتے ہیں کہ اس کے ذہن وفکر میں بھی نہیں ہوتا۔میں بھی آپ کے پاس آؤں گا اوردیکھوں گا کہ آپ مجھ سے کیا برتاؤ کرتے ہیں۔میں نے اس دوست کانام نہیں لیا تھا، لیکن وہ فوراً سمجھ گئے اور فرمایا تم آؤ تو سہی تمہارے ساتھ اس سے زیادہ اچھا سلوک ہوگا۔ |