8۔اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتے۔وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ وسیع الظرف اور فراغ حوصلہ عالم دین تھے۔ہرشخص سے اس کی قابلیت اور قوت فہم کے مطابق گفتگو کرتے۔کسی سے بے مقصد بات کرنا اور لڑنا جھگڑنا ان کی عادت نہ تھی۔دین کے عالم تو وہ تھے ہی، دنیوی معاملات کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ دوسروں کے مسلکی نقطہ نظرکا احترام کرتے اور اپنے مسلک میں بے لچک ہونے کا مظاہرہ کرتے۔ ایک شیعہ اہل علم کا واقعہ قاضی محمد اسلم سیف مرحوم نے”تذکار حافظ عبدالغفور جہلمی“ میں حافظ صاحب سے متعلق ایک شیعہ اہل علم کا واقعہ بیان کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ”اُن کی مجلس میں اہلحدیث اور غیر اہلحدیث کا کوئی امتیاز نہ تھا، جواُن سے ملتا وہ ان سے خندہ پیشانی اور کشادہ قلبی سے پیش آتے۔اسی لیے غیر اہلحدیث آج بھی ان کے حسن اخلاق کے مداح ہیں۔اس کے ثبوت کے لیے ہمارے فاضل دوست سید بشیر حسین شاہ بخاری، صدر مرکز تحقیقاتِ اسلامیہ سرگودھا، مدیر اعلیٰ ماہنامہ”احقاقِ حق“(سرگودھا) جو مسلکاً شیعہ ہیں، حافظ صاحب کے بارے میں راقم کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ”جامعۃ العلوم الاثریہ جہلم کے بانی اور مہتمم جناب حافظ عبدالغفور صاحب اپنے مسلک کے لحاظ سے تو پکے اہلحدیث تھے، مگر دوسرے مکاتب فکر حضرات سے نہایت کشادہ دلی سے پیش آنا ان کا ایک خاص مزاج تھا۔بندہ ان د نوں محکمہ اوقاف پنجاب میں بحیثیت آفسیر سپیشل ڈیوٹی تعینات تھا۔ان کی مسجد اہلحدیث جہلم کی تعمیر ومرمت کا ایک بل اکاؤنٹس برانچ لاہور سنٹرل زون میں زیر تصفیہ چلا آرہا تھا، جس کے لیے وہ بذات خود لاہور دفتر میں تشریف لائے۔کام تو دراصل اکاؤنٹس برانچ کا تھا چونکہ میرے دل میں حضرات علمائے کرام کا قدرتی طور پر احترام کا جذبہ تھا، اس لیے میں نے انھیں دیکھتے ہی اپنے کلرک محمد امین کے ذریعے اپنے کمرے میں بلالیا۔مزاج پرسی کے بعد تشریف آوری کا مقصد دریافت کیا، تو جب آپ نے مسجد اہلحدیث جہلم کے بارے میں اپنے معاملے کی وضاحت فرمائی تو مجھے اپنے قابل صد احترام دوست ہی نہیں بلکہ مہربان جناب مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی مرحوم اور جناب مفتی محمد صدیق مرحوم جو سرگودھا میں میرے مکان کے بالمقابل مرکزی جامع مسجد اہلحدیث بلاک 19 میں خطیب رہ چکے تھے، ان کی محبت اور کرم فرمائی نے میرے دل ودماغ میں کروٹیں لینا شروع کردیں۔میں نے آناً فاناً ان کا بل پاس کرادیا۔پھر چائے پی رہے تھے کہ حافظ صاحب نے بڑے عجیب انداز سے استفسار فرمایا کہ آپ اہل حدیث |