اہل علم اگرچہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی تکریم بجالاتے تھے۔ قرآن مجید سے انھیں قلبی لگاؤ تھا اور اس کی روزانہ تلاوت کرتے تھے۔زبان ذکر الٰہی میں مصروف رہتی تھی۔لوگوں کو بھی ان کے ذہن کے مطابق اس کی ترغیب دیتے تھے۔غریب کی امداز اور مستحق کی اعانت ان کا لازمۂ حیات تھا۔مہمان نوازتھے اور مہمان کو دیکھ کر اور اس کی خدمت کرکے خوش ہوتے تھے۔ بسا اوقات اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دیتے تھے اور یہ بہت بڑا وصف تھا جس سے اللہ نے ان کو نوازا تھا۔یہ ان کے اخلاص کا کرشمہ اور اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اپنی جماعت کے اصحاب علم کے علاوہ دوسری جماعتوں کے اصحابِ علم بھی ان سے مل کر خوش ہوتے تھے اور یہ بھی ان سے اکرام کا برتاؤ کرتے تھے۔ ان کی تبلیغ کا اثر اور کوششوں کا ثمر ہے کہ ان کے جہلم آنے کے بعد وہاں اہلحدیث کی کئی مسجدیں تعمیر ہوئیں، لوگوں کے دلوں میں دینی تعلیم کے حصول کا جذبہ ابھرا اور توحید وسنت کی اشاعت کے دائروں میں وسعت آئی۔جہلم کے اردگرد میں بھی کلمۂ حق بلند ہوا اور لوگ اس سے بے حد متاثر ہوئے۔ روزانہ کے معمولات ان کے روزانہ کے جن معمولات کا مجھے علم ہوسکا ہے، وہ یہ ہیں۔ 1۔تہجد کے بعد قرآن مجید کے تقریباً چار پاروں کی تلاوت۔ 2۔نماز فجر کے بعد مسنون وظائف واوراد۔ 3۔دن رات میں باکثرت درود شریف پڑھتے۔ 4۔نماز اشراق مسجد میں پڑھ کر گھرتشریف لاتے۔ناشتہ کرتے اور گھر کے معاملات کے بارے میں ضروری مشورے کرتے۔اس اثناء میں چھوٹے بچوں یعنی پوتے پوتیوں سے پیارمحبت کی باتیں کی جاتیں اور ان کے ذہن کے مطابق انھیں کچھ سکھانے پڑھانے کی کوشش کی جاتی۔ 5۔پھر اپنے کتب خانے میں تشریف لے جاتے جو ان کا دفتر بھی تھا۔وہاں اساتذہ طلباء اور میل ملاقات سے آنے والوں سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔میل ملاقات والے جماعت کے لوگ بھی ہوتے تھے اورعام شہری بھی۔بعض لوگ گھریلو مشوروں کے لیے بھی آتے۔ 6۔لکھنے پڑھنے اورمطالعہ کا کمرہ بھی یہی تھا۔ 7۔گرمیوں میں دوپہر کا کھانا نمازِ ظہر کے بعد کھاتے اور پھر کچھ دیرقیلولہ کرتے۔ |