مولانا فیض الرحمٰن ثوری 1920ء کے پس وپیش پیدا ہوئے۔نہایت زیرک اور صاحب تحقیق بزرگ تھے۔ان کے علمی کارناموں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔5 دسمبر 1996ء کو ان کا انتقال ہوا۔ حافظ عبدالغفور صاحب کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، جن میں علماء کرام اور مدرسین عظام کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ظاہر ہے وہ حضرات یا ان کے ہم عمر ہوں گے یا عمر میں دوچار سال کی کمی بیشی ہوگی۔ہم انھیں ان کے معاصرین ہی قرار دیں گے، کیونکہ ان کی حیثیت بھی حافظ صاحب کی طرح اصحاب تدریس وخطابت کی ہے۔ یہاں ان کے صرف سات معاصرین کا ذکر کیا گیا ہے جو علمائے دین کےزمرے میں شامل تھے۔اس سے زیادہ کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی ان صفحات میں گنجائش ہے۔باقی معاصرین کو انہی پر قیاس کرلیناچاہیے۔ عادات وخصائل ہرشخص کو بارگاہِ الٰہی سے کچھ عادات وخصائل ودیعت کی جاتی ہیں اور ان عادات وخصائل کا اس کے عمل وکردار سے اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔حافظ عبدالغفور جہلمی بھی بعض عادات وخصائل کے حامل تھے۔ان کا روزانہ بہت سے الگ الگ ذہن وفکر کے لوگوں سے بھی ان کے مراسم تھے، دیہاتیوں کی بھی ان کے ہاں آمدورفت رہتی تھی، شرعی مسائل پوچھنے والے بھی ان کی خدمت میں آتے تھے، مدرسین سے بھی انھیں گفتگو کرنا ہوتی تھی، جامعہ کے ہرروز کے اخراجات کا بھی انہیں انتظام کرنا ہوتا تھا۔اس طرح معاملات کا ایک ہجوم تھا جس سے ہر وقت ان کا واسطہ رہتا تھا۔جوشخص ہمیشہ اس قسم کی ذمہ داریوں میں گھرا رہتا ہو، عام طورپر اس میں چڑچڑا پن آجاتا ہے اور اس پر گھبرا ہٹ کا سایہ لہرانے لگتا ہے۔لیکن حافظ عبدالغفور کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی خصوصیات سے نوازا تھا کہ وہ حالات کا نہایت خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے تھے اور ان کے چہرے پر ہر آن اطمینان کے آثارجھلکتے رہتے تھے۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں وہ باعمل عالم تھے۔اللہ کے دین کے مخلص تریں خادم، تہجد گزار اور عابد وزاہد شخص تھے۔اپنے مسلک کے لوگوں کے علاوہ دوسرے مسالک کے علماء وعوام سے بھی وہ مخلصانہ روابط رکھتے تھے اور بعض مشترکہ معاملات میں ان سے ان کا میل ملاقات کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔وہ بھی ان کے پاس آتے اور یہ بھی ان کے ہاں جاتے تھے۔معتدل مزاج اور نرم خو تھے۔ہرایک کی بات کھلے دل سے سنتے تھے اور اپنی بات صفائی سے ان کو سناتے تھے۔ چھوٹے پر شفقت کا اظہار کرتے اور بڑے کے احترام کو اپنے لیے ضروری قراردیتے تھے۔ |