حضرت مولانا محمد اسحاق حسینوی نے کیا ترجمے کی زبان نہایت صاف ہے۔حضرت حافظ صاحب مرحوم جہاں بہت بڑے مدرس تھے، وہاں ترجمہ و تصنیف کا بھی وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ ترجمے کے بعد اس کی تصحیح اور پروف خوانی کا فریضہ مولانا اکرام اللہ ساجد کیلانی نے انجام دیا۔کتاب آٹھ سو سےزائد صفحات میں پھیلی ہوئی ہے جو متعدد مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔افسوس ہے مطبوعہ شکل میں یہ کتاب حافظ عبدالغفور صاحب نہ دیکھ سکے۔ اسی طرح ایک اور قابل ذکر کتاب”غایۃ الامانی“ہے جو دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔پہلی جلد کا اُردو ترجمہ 760صفحات میں پھیلا ہوا ہے اور دوسری کا 646صفحات میں۔ اس کا اُردو ترجمہ بھی ”انوارِ رحمانی “کے نام سے حافظ عبدالغفور صاحب جہلمی نے کرایا۔ عربی کے مصنف علامہ ابو المعالی محمود شکراوی ہیں اور مترجم ہیں مولانا ابو بکر صدیق سلفی۔اس کی کتابت حافظ صاحب کی زندگی میں ہوگئی تھی۔لیکن طباعت حافظ صاحب کی وفات کے بعد ہوئی۔ یہ دونوں اہم کتابیں جامعہ علوم اثریہ جہلم کی طرف سے شائع کی گئیں اور ان کتابوں کو قبولیت عامہ کا درجہ ملا۔ گزارش کا مطلب یہ ہے کہ حافظ صاحب ممدوح وقت کے تیوروں اور حالات کی رفتار سے خوب آگاہ تھے۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس تھا کہ جہاں یہ دور درس وتدریس میں سر گرم رہنے کا تقاضا کرتا ہے، وہاں یہ تحریر و نگارش کا بھی متقاضی ہے اور قلم و قرطاس سے کام لینے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔چنانچہ انھوں نے اس طرف توجہ دی اور اپنی زندگی میں ان کتابوں کی نشرواشاعت اور ان کے تراجم کے لیے کوشاں ہوئے جو ان کے نزدیک اسلاف کی روایات کو اجاگر کرنے اور قرآن و حدیث کے احکام کو لوگوں تک پہنچانے کا باعث بن سکتی تھیں۔ انھوں نے ذاتی طور پر اس بنیادی کام کا آغاز کیا جو اللہ کے فضل سے اب تک جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ یہ ان کے حسن نیت کی علامت اور ان کے خلوص قلب کا بین ثبوت ہے۔ حاکم شارجہ کا تعاون جو شخص اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے دین کی نشرواشاعت پر کمربستہ ہو جاتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ لوگ خود بخود اس کی طرف دست تعاون بڑھانے لگتے ہیں۔ حافظ عبدالغفورایک مدرس اور خطیب کی حیثیت سے جہلم گئے تھے، جہلم اور اس کے قرب و جوارمیں کوئی ان کا رشتے دار نہ تھا۔ وہاں ان کا اپنا گھر تھا نہ کوئی زمین جائیداد تھی۔ نہ اس علاقےکے کسی مال دار شخص سے ان کے تعلقات تھے۔ لیکن چونکہ ان کے دل میں نیک مقاصد پرورش پا رہے تھے اور اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)کے دین کی خدمت کا جذبہ ان کے ذہن میں موجزن تھا، اس لیے انھیں ایسے ذرائع سے تعاون کی پیشکشیں ہوئیں جن کا کچھ عرصہ پیشتر انھیں تصور بھی نہیں |