علامہ احسان الٰہی ظہیر اوردیگر بہت سے حضرات شامل تھے۔ سنگ بنیاد اس طرح رکھا گیا کہ حافظ عبدالغفور صاحب نے اسے شیخ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی نے اسے امام کعبہ شیخ محمد بن عبداللہ سبیل کے بابرکت ہاتھوں سے متعلقہ مقام پر نصب کرایا۔یہ نہایت مسرت انگیز موقع تھا۔امام صاحب نے اس موقع پر تقریر بھی ارشاد فرمائی۔ جہلم کی تاریخ کا یہ بہت بڑا اجتماع تھا۔ اس میں جہلم شہر کے لوگوں کے علاوہ جہلم سے باہر کے بھی بے شمار لوگوں نے شرکت کی۔ مقامی انتظامیہ نے اس دن سکولوں اور سرکاری دفاتر میں چھٹی کا اعلان کردیا تھا۔ اس کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں مرحوم قاضی محمد اسلم سیف نے بہت محنت کی، لوگوں سے رابطہ کرنے میں ان کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے اور اشتہار وغیرہ شائع کرانے میں انھوں نے بڑی بھاگ دوڑ کی۔ اس قسم کے مواقع پر وہ بے حد ہمت سے کام لیتے تھے اور بڑی جدو جہد کا مظاہرہ کرتے تھے۔ نہ خود آرام کرتے تھے، نہ اپنے ساتھیوں کو آرام کرنے دیتے تھے۔ ہر وقت کام میں جتے رہتے تھے، رحمہ اللہ تعالیٰ۔ جامعہ اثریہ جہلم میں درس و تدریس کے سلسلے کی ضروری تفصیلات آئندہ سطور میں بیان کی جائیں گی۔ وعظ و تبلیغ حافظ عبدالغفور نے جہلم کو اپنا مقام سکونت قراردینے کے بعد یہاں جو چوتھاکام شروع کیا وہ تھا وعظ وتبلیغ کاکام۔وعظ وتبلیغ کا مطلب صرف یہی نہیں کہ کسی شہر یا دیہات میں سٹیج لگا کر وعظ کیا جائے۔ اس کے علاوہ وعظ وتبلیغ کا مطلب یہ بھی ہے کہ انفرادی طور پرلوگوں سے مل کر ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے۔ان کے سامنے حق کی صراحت کی جائے اور باطل سے روکنے کی سعی کی جائے۔اگر یہ ہوگیا تو کوئی مانےیا نہ مانے واعظ اور مبلغ نے اپنا فرض پورا کردیا۔ حافظ عبدالغفور نے اس شہر کے لوگوں میں ہر پہلو سے تبلیغ کی اور ہر اسلوب سے ان پر حق واضح کیا، اور نہایت نرمی اور میٹھے طریقے سے ان پر اللہ کے دین کی صداقت اور حقانیت ثابت کرنے کا اہتمام کیا۔ وہ چلتے پھرتے مبلغ اور واعظ تھے اور ان کے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کی بنا پر لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔اس قسم کے نرم خواور خوش کلام مبلغ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ |