Maktaba Wahhabi

403 - 665
سے آخر تک کسی کو لفظ بہ لفظ یاد نہیں ہے اور یاد ہو بھی نہیں سکتی۔ اس کے برعکس قرآن لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے اور بڑے سے لے چھوٹے تک ہر مسلمان اسے یاد کر سکتا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی حفاظ قرآن موجود ہیں۔ اور ہر جگہ بے حد شوق اور انتہائی دلجمعی کے ساتھ قرآن کو سنا اور پڑھا جاتا ہے۔ نماز فجر کے بعد مساجد میں قرآن مجید کے درس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ورنہ جائیے ماضی قریب کے صرف پنجابی اہل حدیث علمائے کرام کو لیجیے، ان میں متعدد حضرات باقاعدہ درس قرآن دیتے اور لوگ ان کے درس میں حاضر ہوتے تھے۔ ان میں سے بعض حضرات کے شروع سے آخر تک درس قرآن کے کئی کئی دور ہوئے۔ ان میں قاضی سلیمان منصور پوری، مولانا محمد اسماعیل سلفی مولانا محمد حنیف ندوی، حکیم عبداللہ (روڑی والے) اور دیگر متعدد حضرات نے روزانہ کے درس قرآن کو اپنا معمول قراردیے رکھا۔ حافظ عبدالغفور جہلمی مرحوم کا بھی یہی معمول رہا کہ انھوں نے جہلم کو اپنا مستقل مسکن قراردیتے ہی جامع مسجد اہل حدیث میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کردیا تھا اہل حدیث اور غیر اہل حدیث ان کے در س میں آتے اور قرآن مجید کے احکام واوامرکو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن کا پڑھنا، پڑھانا، نہایت برکت کا باعث ہے۔ اگر قرآن کے معانی کو سمجھ کر اس کی تلاوت کی جائے تو بہت سی نئی سے نئی چیزیں سامنے آتی ہیں اور معلومات کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ تدریس جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیا گیا حافظ عبدالغفور جہلمی تجربہ کا مدرس تھے اور متعدد مقامات پر خدمت تدریس سر انجام دے چکے تھے۔آئندہ بھی ان کے یہی عزائم تھے اور یہی کام ان کا اصل مرکز فکر تھا۔وہ چاہتے تھے کہ جہلم میں ایک مثالی دینی درسگاہ قائم کی جائے۔ لیکن اس کے لیےوسائل کو بروئےکار لانا ضرور ی تھا۔جس قدر ارادہ نیک اور اہم تھا اسی قدر اس کی تکمیل کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ اس قسم کا بڑا کام صرف ارادے سے تکمیل کی منزل طے نہیں کر سکتا۔ ارادےکے ساتھ عزم و ہمت اور سرمایہ کی فراہمی بنیاد عنصر ہے۔ اسی دوران میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اس وقت کے استاذ شیخ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ جہلم تشریف لائے۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ شیخ ممدوح اصلاً صوبہ سندھ کے رہنے والے تھے۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور مشہور عالم دین تھے۔ سعودی عرب کے شیوخ وعلما سے ان کے
Flag Counter