جلسہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے اس انجمن کے نو سالانہ جلسے منعقد ہو چکے تھے۔ اگر انجمن کا سالانہ جلسہ ہر سال منعقد ہوتا رہا ہو تو جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ 1918 سے شروع ہوا تھا اور اس زمانے میں جہلم اور اس کے گردونواح میں اہل حدیث اچھی خاصی تعداد میں آباد تھے اور شہر اور علاقے میں اپنا اثر رکھتے تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ جہلم کی مسجد میں اہل حدیث کا انتظام ایک بزرگ حاجی نورالدین کے سپرد ہوا۔ ان کے بعد یہ ذمہ داری ایک اور شخصیت حاجی امام الدین نے سنبھالی۔ انجمن کے فیصلے سے مسجد کے خطیب مولانا کبیر احمد دہلوی کو مقرر کیا گیا۔مولانا کبیر احمد دہلوی کے بعد بطور خطیب مولانا عبدالحق امرتسری کا تقرر ہوا۔ مولانا عبدالحق امرتسری کا تعلق سرحد پار کی جماعت مجاہدین سے تھا اور انگریزی حکومت جماعت مجاہدین سے شدید عداوت رکھتی تھی، جس کے نیتجے میں حکومت نے مولانا عبدالحق امرتسری کو گرفتار کر کے جیل میں بند کردیا اور وہ جیل میں وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد منصب خطابت پر مولانا عبدالغفور (ساکن خورد ضلع جہلم) کو فائز کیا گیا۔ ان کے بعد مولانا عبدالجبار جہلمی کو خطیب بنایا گیا۔انھوں نے بے حد تبلیغی خدمات سر انجام دیں کچھ عرسے بعد وہ کراچی چلے گئے۔ ان کے بعد پونچھ کے مولانا عبدالحق کو ان کی جگہ لایا گیا۔ مولانا عبدالحق کے بعد مولانا عبدالرحمٰن دینا نگری آئے اور ان کے بعد مولانا عبدالمجید دینا نگری نے مسجد کی خطابت و امامت کا فریضہ بھی انجام دیا اور چھوٹے سے پیمانے پر دینی مدرسہ بھی قائم کیا، جس میں ان کے علاوہ بعض دیگر اہل علم بھی تدریسی کام کرتے رہے۔مولانا عبدالمجیددینا نگری نہایت نرم مزاج، مہمان نواز اور عالی کردار بزرگ تھے۔ وہ طویل عرصے تک اس شہر میں اقامت گزیں رہے اور انھوں نے بہت خدمات سر انجام دیں۔ انجمن اہل حدیث کے اصرار پر 1962ءمیں مستقل طور سے حافظ عبدالغفور جہلم آگئے اور اس کے بعد جہلمی کی نسبت ان کے نام کا جزو لاینفک قرارپا گئی اور یہی نسبت قبر میں ان کے ساتھ گئی۔ یہاں یہ بتانا بھی شاید ضروری ہے کہ حضرت میاں نزیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کی وسیع فہرست میں جہلم کے دو علمائےدین کے اسمائے گرامی درج ہیں وہ ہیں مولانا حافظ قطب الدین اور مولانا عظیم اللہ۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان دونوں حضرات کا تعلق سکونت شہر جہلم سے تھا یا ضلع جہلم کے کسی گاؤں یا قصبے سے۔ یہ بھی پتا نہ چل سکا کہ انھوں نے حضرت میاں صاحب سے کس دور میں تعلیم حاصل کی، کب ان کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور ان سے کون کون سی کتابیں پڑھیں۔ یعنی کوشش کے باوجود ان کے کسی قسم کے حالات کا علم نہ ہوسکا۔ |