صاحب تاندلیاں والا کے مدرسے کی مسند درس پر متمکن ہوئے۔لیکن یہاں وہ صرف دو سال 1958ء تک) رہے۔ تاندلیاں والا سے حافظ عبدالغفور کو پھر نقل مکانی کرنا پڑی۔چند لفظی شرح اس متن کی یہ ہے کہ کئی سال سے جہلم میں اُس دور کے مشہور عالم مولانا عبدالمجید دینا نگری خطابتی خدمات انجام دے رہے تھے۔چھوٹا سا مدرسہ بھی انھوں نے مسجد میں جاری کررکھا تھا جس میں محدود تعداد میں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن جب وہ کبرسنی کو پہنچ گئے اور جسمانی کمزوری کا شکار ہوگئے توانھوں نے جہلم کی جماعت اہلحدیث کے مشورے سے حافظ عبدالغفور سے رابطہ قائم کیا اور میں محمد باقر مرحوم سے ملاقات کی اور جہلم کی جامع مسجد اہلحدیث کی خطابت وامامت اور درسِ قرآن کے لیے حافظ عبدالغفور کی خدمات حاصل کرلیں۔یہ 1958ء کی بات ہے۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا، اس لیے کہ حافظ صاحب ممدوح بطور مدرس کام کرنا چاہتے تھے اور طلباء کو پڑھانا انھوں نے اپنا مقاصد ِزندگی قراردے لیا تھا، جبکہ جہلم میں اس وقت یہ صورت حال نہ تھی، وہاں صرف خطابت امامت اور صبح کا درس قرآن تھا، لہذا جہلم کی جماعت سے معذرت کرکے حافظ صاحب فیصل آباد گئے اور 1959ء میں جامعہ سلفیہ کی مجلس انتظامیہ نے بطور مدرس ان کی تقرری جامعہ سلفیہ میں کردی۔اس وقت جامعہ سلفیہ کی زمامِ اہتمام مولانا محمد اسحاق چیمہ کے ہاتھ میں تھی اور حضرت مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا شریف اللہ خاں سواتی اور مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی جامعہ کی مسند درس پرمامور تھے۔حافظ عبدالغفور تین برس(1961ء تک) جامعہ سلفیہ میں خدمت تدریس پر مامور رہے۔ کامیاب مدرس حافظ عبدالغفور کے مختلف اوقات میں مختلف مقامات میں نقل وحرکت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کہیں جم کر بیٹھ نہیں سکے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تدریس کے دورِ ابتدا ہی سے انھیں محنت اور لگن سے پڑھانے کی عادت پڑ گئی تھی، جس سے مدارس کے اصحابِ انتظام بھی متاثر تھے اور طلباء بھی ان کے اندازِ تدریس سے خوش تھے۔چنانچہ جھوک دادو کے مدرسے سے لے کر فیصل آباد کی جامعہ سلفیہ اور راولپنڈی کے مدرسہ تدریس القرآن والحدیث تک کے منتظمین اور طلباء پر ان کا اثر تھا اور چھوٹے بڑے، تدریسی ادارے میں ان کی مانگ تھی اور وہ چاہتے تھے کہ حافظ صاحب ان کے ہاں خدمت تدریس انجام دیں۔یہ کسی مدرس کا بہت بڑا اعزاز ہے جو تدریسِ کے ابتدائی دور میں اسے حاصل ہوجائے۔اور حافظ عبدالغفور کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس میں ان کی طلب بڑھ گئی۔ |