کاروبار سے کیا۔لیکن کاروبار کا سلسلہ ان کےساتھ زیادہ دیر نباہ نہ کرسکا۔1950ء میں میاں محمد باقر ان کو مدرس کی حیثیت سے اپنے گاؤں(جھوک دادوچک نمبر 427 گ ب) کے مدرسہ خادم القرآن والحدیث میں لے گئے۔1953ءتک تقریباً تین سال وہ اس مدرسے میں مصروفِ تدریس رہے۔اب انھوں نے تدریس کی خوشنماوادی میں داخل ہوکر خود کو مدرسین کی معزز برادری میں شامل کرلیا تھا اور محنت کرکےجلد ہی اس برادری کے معروف رکن کی حیثیت اختیار کرلی تھی، جس کے نتیجے میں مدارس کے اربابِ اہتمام بھی ان پرخوش تھے اور طلباء بھی ان کے طریق تدریس سے مطمئن تھے، وہ نہایت ذمہ داری سے زیر درس کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ بنیادی فریضہ ادا کرتے تھے۔ عبدالغفور اسی مدرسہ خادم القرآن والحدیث میں مصروف تدریس تھے کہ 1953میں قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔لاہور میں پاکستان کی”اسلامی حکومت“ نے مارشل لاء نافذ کردیا اور مرزائیت کی مخالفت کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قراردینے والوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کرنا شروع کردیا۔عبدالغفور کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور ان کے بعض شاگردوں کو بھی ان کے ساتھ ہی دھر لیاگیا۔اب یہ لوگ منٹگمری(حال ساہیوال) جیل میں قید تھے۔اسی جیل میں ان کے ایک شاگرد حافظ محمد سلیم قید تھے۔ ان کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ مرزا قادیانی کو جھوٹا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی قراردیتے تھے۔مولانا عبدالغفور نے اس قید کو غنیمت جانا اور قرآن مجید یاد کرنے کا فیصلہ کیا۔روزانہ جتنا قرآن مجید یاد کرتے تھے، اپنے شاگرد حافظ محمد سلیم کو سنا دیتے تھے۔اس طرح ان کے یہ شاگرد ان کے استاد بھی تھے۔صرف 39 روز میں پورا قرآن ِ مجید حفظ کرلیا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے ذہین تھے اور امور خیر میں کس قدر مستعد رہتے تھے۔ 1954ء میں جامع مسجد اہلحدیث راولپنڈی کے خطیب مولانا حافظ اسماعیل ذبیح مرحوم نے اپنی مسجد میں دینی مدرسہ جاری کرنے کا عزم کیا تو وہ میاں محمد باقر مرحوم سے اجازت لے کر حافظ عبدالغفور کو اپنے اس نئے مدرسے میں لے گئے۔مولانا حافظ احمداللہ بڈھیمالوی کی خدمات بھی انھوں نے حاصل کرلی تھیں۔حافظ اسماعیل ذبیح نے اس مدرسے کا نام مدرسہ تدریس القرآن والحدیث رکھاتھا۔حافظ عبدالغفور اس مدرسے میں دو برس مدرس رہے۔وہ مدرس کے علاوہ بہت اچھے خطیب بھی تھے، چنانچہ اس اثناء میں وہ راولپنڈی کی مسجد اہلحدیث(چک بازار صدر) میں فریضۂ خطابت بھی انجام دیتے رہے۔ 1956ء میں میاں محمد باقر انھیں راولپنڈی سے تاندلیاں والا لے آئے۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میاں صاحب نے اپنے گاؤں کے مدرسے کا کچھ حصہ منڈی تاندلیاں والا میں منتقل کردیا تھا اور اس سلسلے میں حافظ عبدالغفور کی خدمات حاصل کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا۔چنانچہ اب حافظ |