Maktaba Wahhabi

388 - 665
لی اور انھوں نے حضرت حافظ صاحب کے حکم سے جامعہ اسلامیہ میں باقاعدہ طور سے 1951ء میں سلسلۂ تدریس شروع کردیا۔اس وقت جن درسی کتابوں کی تدریس ان کے ذمے ہوئی، وہ تھیں تفسیر بیضاوی تفسیر، تفسیر جامع البیان، تفسیر الاتقان، حجۃ اللہ البالغہ، توضیح تلویح، سلّم العلوم، نورالانوار، تاریخ الادب العربی، متنبیّ، حماسہ اور کامل للمجرد، کم وبیش پانچ سال وہ طلباء کو یہ کتابیں پڑھاتے رہے اور بے حد محنت اور دلچسپی سے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ان کے پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ ہربات آسانی سے ہر طالب علم کے ذہن میں اتر جاتی تھی۔دن کو بھی تدریس اور مغرب کے بعد اگرضروری سمجھا تو پھر بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔جامعہ اسلامیہ کوانھوں نے عملاً اپنا ذاتی دارالعلوم قراردے لیا تھا اور یہی ان کی شب وروز کی سرگرمیوں کا محور قرارپاگیا تھا۔ پانچ سال کےبعد ایک آٹھ سالہ نصابِ تعلیم مرتب کیا گیا تاکہ پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک ایک خاص انداز سے طلباء کو تعلیم دی جائے۔مولانا ابوالبرکات نے تقریباً چالیس سال جامعہ اسلامیہ میں خدمت تدریس سرانجام دیں اورطلباء نے ان سے خوب استفادہ کیا۔تدریس کے علاوہ ان کا کوئی مشغلہ نہ تھا اور کسی معاملے میں انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مولانا ممدوح چونکہ منجھے ہوئے مدرس تھے اورنہایت محنت اورتوجہ سے پڑھاتے تھے، اس لیے متعدد مدارس کے اربابِ اہتمام نے زیادہ تنخواہ پر ان کی تدریسی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے جامعہ اسلامیہ سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔اس کے لیے اپنی زندگی وقف کیے رکھی۔وہ نہایت قناعت پسند تھے اور گفتار میں، کردار میں سلف صالحین کا صحیح نمونہ۔اب وہ مستقل طور سے گوجرانوالہ کے باشندے تھےاور یہیں کے ایک بزرگ مولانا نورالدین نے ان کے اخلاص واخلاق اور پاکیزگی اطوار سے متاثر ہوکر 1953ء میں اپنی دختر نیک اختر ان کے عقد میں دے دی۔اس وقت ان کی عمر ستائیس برس کی تھی۔یہ ان کی بھری جوانی کا زمانہ تھا جسے صالحیت کے خوبصورت مرقع سے تعبیر کرنا چاہیے۔ مولانا ابوالبرکات جہاں دارالعلوم کی چار دیواری میں طلباء کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے اور انھیں نصائح سے نوازتے تھے، وہاں تعطیلات کے زمانے میں اپنے گھروں میں جانے والے طلباء کو نصیحتیں بھی فرماتے تھے کہ وہ اپنے گھر، اپنے محلے اور اپنے گاؤں کے لوگوں میں وقار سے رہیں، ان کو اپنے علم اور نیکی سے متاثر کرنے کی کوشش کریں۔باجماعت نماز پڑھیں۔ننگے سر گلیوں میں نہ گھومیں، کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کریں، ہرشخص سے خوش اسلوبی سے پیش آئیں، چھوٹے بڑے سے ہم کلام ہوتے وقت اخلاق کی دولت اور شیرینی زبان کی پونجی آپ کے پاس ہونی چاہیے۔ وہ تہجد گزار اورعابد وزاہد عالم دین تھے۔انتہائی غیرت مند اور باحمیت تھے۔کسی کے احسان
Flag Counter