کی اصطلاح میں فارغ التحصیل تھے۔ ان کا اصل مسئلہ کسی بہتر علمی مقام پر قیام و سکونت کا تھا اور یہ مسئلہ مدرسے میں داخلے ہی سے حل ہو سکتا تھا، چنانچہ انھیں داخلہ مل گیا اور بعض کتابیں پڑھنے لگے۔حضرت حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا محمد اسحاق چیمہ اور مولانا محمد یعقوب ملہوی اس وقت وہاں فریضہ تدریس انجام دیتے تھے۔ان حضرات سے انھوں نے کچھ استفادہ کیا اور سند لی۔ صوفی عبداللہ صاحب ان پر خاص طور سے شفقت فرماتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ عربی مدارس کے علوم و فنون میں مہارت پیدا کر لیں۔ چنانچہ انھوں نے ان کو گوجرانوالہ میں حضرت حافظ محمد صاحب گوندلوی کی خدمت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔حضرت حافظ صاحب اس وقت جامعہ اسلامیہ (گوجرانوالہ ) کی مسند تدریس پر متمکن تھے۔مولانا ابو البرکات نے بذریعہ خط حضرت حافظ صاحب سے رابطہ قائم کیا تو حضرت حافظ صاحب نے جواب میں ان کو صورت حال سے مطلع فرمایا اور وہ چند روز بعد حافظ صاحب کی خدمت میں حاضرہو گئے۔حافظ صاحب سے انھوں نے صحیح بخاری کا درس لیا اور بعض فنون کی چند انتہائی کتابیں پڑھیں۔ متواتردو سال وہ حضرت حافظ صاحب سے مستفید ہوتے رہے۔ اس وقت ان کا بذریعہ و کتابت والدین سے باقاعدہ رابطہ قائم تھا اور والدین چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا واپس اپنے آبائی وطن آجائے۔خود مولانا بھی مروجہ علوم کی تحصیل کے بعد والدین کے پاس جانا چاہتے تھے مدراس اسمبلی کے مسلمان ارکان نے بھی ان کی وطن واپسی کے لیے کوشش کی، لیکن واپسی کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی، اس اثنا ءمیں ان کےوالدین بھی وفات پا گئے تو انھوں نےپاکستان ہی کو مستقل طور سے اپنا وطن قراردے لیا۔ حضرت حافظ صاحب سے علوم کی تکمیل کے بعد مولانا ابو البرکات شعبان اور رمضان کی تعطیلات کے زمانے میں لاہور آگئے۔اس وقت پاکستان میں جناح ٹوپیوں کا رواج تھا اور لوگ بڑے شوق سے یہ ٹوپیاں خریدتے اور پہنتے تھے، چنانچہ مولانا ابوالبرکات لاہور آئے اور یہاں ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر ٹوپیاں بیچنا شروع کردیں۔ اس کاروبار سے انھیں مالی فائدہ تو ضرور ہوتا تھا۔لیکن ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے وہ اس پر مطمئن نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے اوڈاں والا میں صوفی عبداللہ صاحب کو خط لکھا اور تمام صورت حال سے مطلع کیا تو صوفی صاحب نے ان کو جواب دیا کہ فوراً اوڈاں والا آئیے اور اس مدرسےمیں خدمت تدریس انجام دیجیے۔ لیکن ادھر حضرت حافظ محمد گوندلوی کو پورے واقعہ کا علم ہوا تو انھوں نے ارشاد فرمایا کہ جامعہ اسلامیہ میں طلبا ءکو پڑھاؤ۔ مولانا نے فرمایا: میں نے صوفی صاحب کی دعوت پر ان سے وعدہ کر لیا ہے۔ اب مجھے وعدے کے مطابق وہیں جانا چاہیے۔ لیکن حضرت حافظ صاحب نے صوفی صاحب سے اجازت لے |