قابل رحم حالت میں تھی۔ مولانا ابو البرکات احمد مسجد چینی والی میں آئے اور جو طالب علم وہاں بیٹھے تھے، انھیں سلام کیا۔ وہ طالب علم بھی معلوم نہیں کس ذہنی کیفیت سے دوچار تھے جو ان کی صحیح طور سے پذیر ائی نہ کر سکے۔ مولانا کو اپنے متعلق ان کے رویے سے دل شکنی ہوئی اور وہ جلد ہی مسجد سے باہر نکلے اور انار کلی کے ایک ہوٹل میں جا مقیم ہوئے۔ ان کے پاس ابھی تک وہ رقم موجود تھی جو وہ ہندوستان سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ یہ رقم قریب الاختتام ہے تو داخلے کے لیے کسی مدرسے کی تلاش شروع ہوئی۔ایک شخص نے اچھرے کے ایک مدرسے کے متعلق بتایا تو اس میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے والدین کو خط لکھا اور کچھ رقم منگوائی جو مدرسے کے پتے پر انھیں پہنچ گئی۔ یہ احناف کا مدرسہ تھا لیکن مولانا ابو البرکات نماز میں رفع الیدین بھی کرتے تھے اور قدرے جہری آواز سے آمین بھی پکارتے تھے۔بعض طلباء کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ ہندوستان میں شافعیوں کے مدرسے میں پڑھتے رہے ہیں اور شافعی مسلک کے لوگ نماز میں رفع الیدین بھی کرتے ہیں اور آمین بھی پکارتے ہیں۔ نیز حدیث کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ عمل کرتے تھے، اس لیے میں بھی کرتا ہوں۔ ایک طالب علم نے کہا آپ وہابی معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے استاذ نے اگر آپ کو رفع الیدین کرتے دیکھ لیا تو مدرسے سے نکال دیں گے۔ اسی اثناءمیں انھیں اوڈاں والا کے مدرسے کا پتا چلا اور صوفی عبداللہ مرحوم اورمولانا عبدالقادر ندوی کے متعلق کچھ معلومات حاصل ہوئیں تو عربی میں مولانا عبدالقادر ندوی کو خط لکھا۔ انھوں نے فوراً جواب دیا اور وہ اوڈاں والا پہنچ گئے۔ وہاں جا کر ان کی نظریں مولانا عبدالقادر ندوی کو ڈھونڈنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ لکھنؤ کی تہذیب کے چلتے پھرتے پیکر شیروانی اور پاجامے میں ملبوس ہوں گے اور سر پر ٹوپی ہوگی۔ لیکن وہاں ان کے اس تصوراتی لباس میں کوئی شخص بھی ملبوس نہ تھا۔عبدالقادر تہبند باندھے اور معمولی قمیص پہنے ہوئے تھے۔ یعنی وہ سرتاپا عبدالقادر تھے، ندویت کا کو ئی شائبہ ان میں پایا نہیں جاتا تھا۔ مولانا عبدالقادر ندوی، صوفی عبداللہ اور مدرسے کے اساتذہ و طلباء مولانا ابو البرکات احمد سے بے حد محبت سے پیش آئے اور مولانا ابو البرکات احمد ان حضرات سے بہت متاثر ہوئے۔ ندوی صاحب کے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ حدیث کی انتہائی کتابیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم ایک مرتبہ تو وہ باقاعدہ پڑھ چکے ہیں اور دو مرتبہ ان کا سماع کیا ہے۔ حدیث کی سند بھی لے چکے ہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ دینی مدارس کے مروجہ نصاب کی تمام کتابیں مکمل کر چکے تھے یعنی مدارس |