طلباء اس زمانےمیں مصر کے شاہ فاروق کے خلاف اس بنا پر مظاہرے کر رہے تھے کہ اس نے برطانوی فوج کی ایک خاص تعداد کو مصر میں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی، جب کہ وہاں کے عوام اس کی مخالفت کر رہے تھے اور جامعہ ازہر اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء اس سلسلے میں مصری عوام کے حامی تھے۔اور مظاہرین میں شامل تھے۔ مصر نہ جانے کا انھیں بہت افسوس ہوا۔لیکن افسوس سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔اس وقت ان کے پاس اچھی خاصی رقم تھی جو مصر کے سفر کے لیے والدین نے دی تھی۔ بمبئی میں ان کو مدرسۃ العالیہ کے ایک طالب علم محمد موسیٰ مل گئے۔دونوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں اور شہروں کا مطالعاتی سفر شروع کردیا۔ چنانچہ حیدر آباد (دکن) بنگال، یوپی، بہار اورسی پی وغیرہ صوبوں کے بہت سے شہروں کی سیر کی اور چلتے پھرتے دہلی آگئے۔ مولانا ابو البرکات احمد کی مادری زبان اُردو نہ تھی۔اس لیے اُردو میں زیادہ گفتگو کرنا اور اسے اچھی طرح سمجھنا ان کے لیے مشکل تھا۔ لیکن اُردو سیکھنے اور اس میں روانی سے بات کرنے کا انھیں بے حد شوق تھا۔ دہلی آکر انھوں نے مولانا حافظ عبدالستاردہلوی کے(مدرسہ) دارالکتاب والسنہ میں داخلہ لے لیا۔وہاں حضرت حافظ صاحب ممدوح اس وقت طلبا ءکو صحیح بخاری اور صحیح مسلم پڑھا رہے تھے۔ مولانا ابو البرکات احمد بھی اجازت لے کر ان کتابوں کے درس میں شامل ہو گئے۔اس مدرسے میں چونکہ ہر وقت اُردو بولی جاتی تھی اور اساتذہ و طلباء اسی زبان میں گفتگو کرتے تھے، اس لیے ان کو وہاں اُردو زبان سمجھنے میں بہت مدد لی۔علاوہ ازیں مولانا ابو الکلام آزاد مولانا شبلی اور دیگر مصنفین کی اُردو کتابوں کا خوب مطالعہ کیا۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ اور ندوۃ المصنفین دہلی کی مطبوعات بھی وہاں پڑھیں اور اُردو زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہوگئی۔ مولانا ابو البرکات احمد دہلی کے اس مدرسے میں تھے کہ ملک تقسیم ہوگیا اور پھر کسی نہ کسی طرح وہ دہلی سے لاہور پہنچ گئے۔لاہور آکر ان کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اور آگے چل کروہ بارگاہِ الٰہی سے بہت بڑے اعزاز کے مستحق قرارپاتے ہیں۔ لاہور ان کے لیے ایک اجنبی شہر تھا اور وہ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ قدرتی طور پر انھیں یہاں آکر اپنے ہم مسلک وہم مشرب لوگوں کی ضرورت پڑی اور انھوں نے ان کی تلاش شروع کی۔پتا چلا کہ یہاں چینی والی مسجد اہل حدیث کا ایک بڑا مرکز ہے، جس میں مدرسہ بھی جاری ہے۔ وہ وہاں پہنچے تو دوچار طالب علم بیٹھے تھے۔وہ افراتفری کا زمانہ تھا اور کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا۔بڑے بڑے عالم، بڑے بڑے قومی رہنما اور بڑے بڑےامیر لوگ تنہائی کا شکار تھے اور کوئی کسی کو پوچھنے والا اور کوئی کسی کا غمگسارنہ تھا۔ پاکستان آنے والوں کی بہت بڑی اکثریت مظلوم اور |