Maktaba Wahhabi

347 - 665
لگ بھگ مالیر کوٹلہ تشریف لائے۔اس وقت راقم الحروف جامع مسجد اہلحدیث مالیر کوٹلہ سے بطور خطیب اور مدرس وابستہ تھا۔مولانامرحوم نےصبح کی نماز کے بعددرسِ قرآن مجید دیا جواپنی معنویت اور معلومات کے اعتبار سے بہت عمدہ اور بے مثال تھا۔“ مولانا رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”چند سال ہوئے جامعہ سلفیہ کے عظیم الشان جلسے میں راقم الحروف نے مولانا ندوی کی صدارت میں حجیت حدیث کے موضوع پر تقریر کی۔تقریر کے آغاز میں مولانا محترم کی علمی خدمات کا اعتراف کیا اور ان کی ستائش کی۔“ مولانا رقم فرماتے ہیں: ”کئی سال ہوئے علماء کنونشن کے موقع پر ایوانِ صدر میں ایک پرتکلف دعوت میں مولانا حنیف ندوی مرحوم سے ملاقات ہوئی۔انتہائی تپاک اور خندہ پیشانی سے ملے اور کچھ دیر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔“ ایک اور چھوٹا سا واقعہ سنیے۔مولانا عبدالغفار حسن فرماتے ہیں: ”جس زمانے میں جماعت اہلحدیث میں امارت وصدارت کے سلسلے میں نزاع برپا تھا، تو مولانا داؤد غزنوی کی صدارت میں مدرسہ تقویۃ الاسلام کے وسیع ہال میں جلسہ منعقد ہوا، جس میں طرفین کے مقررین نے اپنے خیالات ودلائل کا اظہار کیا۔اس موقعے پر مولانا حنیف ندوی مرحوم نے نظام صدارت کی تائید میں مدلل تقریر فرمائی۔ اسی سلسلے میں چوک دالگراں مسجد قدس میں ایک مجلس مشاورت منعقد ہوئی، جس میں بہت سے اہل علم موجود تھے۔اس موقعے پر راقم الحروف کی نشست کچھ فاصلے پر تھی۔مولانا مرحوم نے اپنے قریب صف اوّل میں بیٹھنے کی دعوت دی۔اس قسم کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا مرحوم راقم الحروف سے کس محبت وشفقت سے پیش آتے تھے اور خود راقم الحروف نے بھی ان کے احترام واکرام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔“ اب آخر میں مولانا محمد حنیف ندوی کے متعلق مولانا عبدالغفار حسن کا رقم فرسودہ ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے: چند سال قبل اسلام آباد میں( اس زمانے کے) صدر پاکستان(جنرل ضیاءالحق) کی طلب پر علماء کنونشن منعقد ہواتھا، اور اس کے ماتحت متعدد سب کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، جن میں ایک کمیٹی ”اجتہادِکمیٹی“ کے نام سے تشکیل پائی تھی، جس کے ارکان میں میرا نام بھی تھا اور مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم بھی اس میں شامل تھے۔اس کمیٹی کے اجلاس میں ہرمکتب فکر کے اہل علم نامزد کیے گئے
Flag Counter