تھے اور تقریباً سب نے اجتہاد کے موضوع پر خطاب کیا تھا۔اس اجلاس میں ایک قابل ذکر واقعہ یہ ہوا کہ ایک متعصب قسم کے ”صاحب علم“ نے اپنے جمود کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بادیہ نشین صحرائی تھے۔(اوکماقال) اور اس قسم کے کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص ہوتی تھی۔اس موقعے پر مولانا حنیف ندوی کی غیرت دینی جوش میں آگئی اور انھوں نے فوراً مقرر کوٹوکتے ہوئے پورے جوش اور بلند آہنگی سے فرمایا:یہ الفاظ ناقابل برداشت ہیں، واپس لیجئے، واپس لیجئے، عمر پوری علمائے کرام ہندوستان کے اہل علم عمر پوری علمائے کرام کا اب بھی نہایت احترام سے تذکرہ کرتے ہیں اور ان کی علمی خدمات اور ان کے تقویٰ وتدین کے معترف ہیں۔چند مہینے پیشتر کی بات ہے کہ مجھے کاندھلہ(ضلع مظفر نگر) سے ایک ممتاز دیوبندی عالم مولانا نورالحسن راشد کا خط آیا کی کسی زمانے میں عمرپور اچھا خاصہ بارونق قصبہ(یاقریہ) تھا، اب اس کی وہ حالت نہیں رہی۔کاندھلہ سے یہ قصبہ تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں کے اہلحدیث اصحاب علم کو اس نواح میں بےحد اکرام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔اب بھی پرانے لوگ بڑی تکریم سے ان کا ذکر کرتے ہیں۔ مولانا نور الحسن راشد نے مجھ سے پوچھا تھاکہ مولانا عبدالغفار حسن اور ان کے صاحبزادوں کے متعلق آپ کو کچھ پتا ہوتو مجھے اطلاع دیں۔چنانچہ میں نے ان کو جواب میں مولانا عبدالغفار حسن اور ان کے صاحبزادوں کے متعلق تفصیل سے بتایا اور ان کی علمی سرگرمیوں سے انھیں مطلع کیا۔لیکن اس کے بعد ان کا کوئی خط نہیں آیا۔ تحریک تحفظ ختم نبوت میں قید پہلے بتایا گیا ہے کہ مولانا عبدالغفارحسن 1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں گیارہ مہینے قید رہے۔اس سلسلے میں ہفت روزہ”الاعتصام“ کے منیجر عزیزی محمد سلیم چنیوٹی کے ایک خط کے جواب میں انھوں نے 12۔جون 2001ء کو مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا تھا جو 3۔اگست 2001ء کے” الاعتصام“ میں شائع ہوا۔ ”تحریک ختم نبوت 1953ء کے سلسلے میں گیارہ ماہ جیل میں رہا ہوں (یعنی ایک ماہ سیالکوٹ جیل میں اور دس ماہ ملتان جیل میں بسر ہوئے) میرے ساتھ جیل میں مولانا محمد علی مظفری(ڈسکہ ضلع سیالکوٹ) بھی تھے۔جیل میں عام حالات یہ تھے کھانے کے لیے چوبیس گھنٹوں میں ایک فعہ دلیا ملتا تھا، جس میں کنکر، روڈ سب شامل تھے۔اور دوپہر کو روٹی سالن ملتا۔اس میں بھی ملاوٹ ہوتی |