Maktaba Wahhabi

346 - 665
نے مولانا مودودی کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اہلحدیث تھے۔ مولانا محمد حنیف ندوی کے بارے میں ان کے رائے مولانا عبدالغفار حسن علمائے دین کے بے حد قدردان تھے اور ان کا ذکر نہایت احترام کے الفاظ سے فرمایا کرتے تھے۔مولانا محمد حنیف ندوی نے 12۔جولائی 1987ء کو وفات پائی۔میں نے ان کے بارے میں متعدد مقامات پر لکھا ہے، کہیں تفصیل سے اور کہیں اختصار سے۔ان کے حالات میں میری ایک مستقل کتاب بھی ہے جس کا نام”ارمغانِ حنیف“ ہےاور 371صفحات پر مشتمل ہے۔ہفت روزہ”الاعتصام“ کا بھی”متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی رحمۃ اللہ علیہ“ کے عنوان سے دسمبر 1988ء میں خاص نمبرشائع ہواتھا جو231 صفحات میں پھیلا ہوا ہے۔اس نمبر میں”مولانا حنیف ندوی کی یاد میں“ کے عنوان سے مولانا عبدالغفار حسن کا مضمون بھی شامل ہے۔اس مضمون میں سے چند باتیں یہاں درج کی جاتی ہیں۔مولانا عبدالغفارحسن تحریرفرماتے ہیں: ”مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم سے میرا تعارف اپریل 1934ءمیں ہوا جبکہ راقم الحروف انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں بطور سامع شرکت کے لیے حاضر ہوا۔اس جلسے میں مولانا موصوف نے پردے کی حمایت میں زور دار مدلل تقریر کرتے ہوئے فرمایا:کیا مغرب زدہ حضرات مسلمان عورت کو بے پردہ کرکے یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی غربت وافلاس کا مظاہرہ عام ہوجائے۔آخر برقع اترنے کے بعد پیوند لگے ہوئے کپڑوں کے سوا اور کیا نظر آئے گا۔“(اوکما قال روایت بالمعنی) ”جلسے کے اختتام پر صدارتی تقریر میں جسٹس عبدالقادر مرحوم نے مولانا کی تقریر پر نہایت پر زورالفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی تعلیم کےاثرات ہیں کہ مولانا موصوف نے حقوق نسواں پرٹھوس مواد اردو زبان میں پیش کیاہے۔“ اس سے آگے مولانا عبدالغفار حسن فرماتے ہیں: ”آج سے بیس سال قبل جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد کی تربیت گاہ میں محاضرات دینے کے لیے مولانا ندوی تشریف لائے اور اہل علم ان کی تقاریر سے بے حد محفوظ ہوئے۔ایک مرتبہ مولانا عبدالرحیم اشرف صاحب کے مکان پر مولانا مرحوم نے سورۂ والتین کادرس دیاجو علمی نکات کے لحاظ سے انتہائی بلند پایہ اور بصیرت افروز تھا۔“ مولانا مزید فرماتے ہیں: ”ترتیب زمانی کے لحاظ سے ایک واقعہ کا تذکرہ رہ گیا۔وہ یہ کہ مولانامحترم 1944ء کے
Flag Counter