Maktaba Wahhabi

345 - 665
سرانجام دیں ان کا تذکرہ بھی کیا ہے۔بہرحال پاکستان میں جامعہ تعلیمات، جامعہ سلفیہ اور دارالقرآن والحدیث وغیرہ میں ان کا سلسلۂ درس وتدریس جاری رہا۔یہ تینوں تدریسی ادارے فیصل آباد کے ہیں۔ان اداروں میں متعدد حضرات نے ان سے استفادہ کیا۔ مولانا نے”الاعتصام“میں جو واقعات تحریر فرمائے ہیں وہ بڑے اہم واقعات ہیں جوتاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔حک واضافے کے ساتھ انھیں کتابی صورت میں شائع کردینا چاہیے۔ وفات مولانا ممدوح کئی سال مستقل طور پر اپنے عالم وفاضل صاحبزادے ڈاکٹر سہیل حسن کے ہاں اسلام آباد میں اقامت فرمارہے۔اس فقیر کی یہ خوش بختی ہے کہ وہ اس کے کرم فرما تھے۔ان کی خدمت میں آخری مرتبہ سلام عرض کرنے کی سعادت 21۔اپریل 2003ء کو حاصل ہوئی۔21، 22 اپریل 2003ء کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) میں”میں برصغیر میں علم حدیث“ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا تھا۔اس کے افتتاحی اجلاس میں مولانا تشریف لائے تھے اور انھوں نے افتتاحی تقریر ارشاد فرمائی تھی۔اس موقعے پر میں نے ان کی خدمت میں شخصیات سے متعلق اپنی کتاب”قافلہ حدیث“ پیش کی تھی۔ مولانا عبدالغفار حسن کی تاریخ ولادت 20۔جولائی 1913ء تھی۔22۔مارچ 2007ء کو انھوں نے سفرآخرت اختیار فرمایا۔اس طرح عیسوی حساب کے مطابق انھوں نے 93 سال آٹھ مہینے دو دن عمر پائی۔ خاندانی اور ذاتی اعتبار سے ان کا مرتبہ بڑا بلند تھا اور ان کی تدریسی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا جو ہندوستان اور پاکستان سے لے کر مدینہ منورہ تک پھیلا ہواتھا۔ان کے شاگردوں کی تعداد شمار سے باہر ہے جو مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں تحریری، تقریری اور تدریسی صورت میں اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں۔یہ مولانا کے لیے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے جو ان شاء اللہ تعالیٰ ان کے لیے باعث مغفرت ہوگا۔ ہم عاجز بندوں کی اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اپنے دین کے اس مخلص ترین خادم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔ یہ فقیر اس موقع پر بھی یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ حضرت مولانا کی وفات پر پاکستان اور ہندوستان کے تمام اہلحدیث رسائل وجرائد میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے جو متعدد علمائے کرام نے تحریر فرمائے، لیکن جماعت اسلامی کے کسی اخبار یا رسالے نے ان کے متعلق دوسطریں بھی نہیں تھیں۔نہ جماعت کے کسی سرکردہ شخص نے کوئی تعزیتی بیان دیا۔اس کی وجہ تو یہ ہے کہ انھوں
Flag Counter