Maktaba Wahhabi

343 - 665
یعنی پوری جماعت ہر معاملےمیں فرد واحد(امیرجماعت) کا تسلط تھا، کسی کو ان کے سامنے پر مارنے کی جرأت نہ تھی۔جنھوں نےتھوڑی بہت جرأت کی انھیں جماعت سے نکال دیا گیا اور ملازمت سے علیحدہ کردیا گیا۔ جماعت اسلامی والوں کے بیانات ہرروز ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں، یہ لوگ حکومت میں تو فرد واحد کی مخالفت کرتے ہیں، ارکانِ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اگر کسی وجہ سےکسی کو ملازمت سےبرطرف کردیا جائے تو اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں لیکن اس باب میں خود ان کا کیا طرزِعمل ہے، اس کی وضاحت جماعت اسلامی کے سابق امیر اورسابق رکن مجلس شوریٰ مولانا عبدالغفار حسن کی زبان سے ہم نے سن لی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کےواقعات صرف لوگوں کو سنانے کے لیے ہیں خود عمل کے لیے نہیں۔ مولانا عبدالغفار حسن کے حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ وہ سولہ ستر ہ سال اس حبس زدہ فضا میں محبوس رہے۔بے شک وہ بہت بڑے دل گردے کے مالک تھے۔مولانا منظور نعمانی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا نذیرالحق میرٹھی، مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی اور مستری محمد صدیق وغیرہ مرحومین میں بالکل ابتداء میں جماعت میں شامل ہوئے تھے، لیکن اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر جلد ہی اسے اس سے نکل گئے تھے۔وہ علمائے کرام کے جس حلقے سے آئے تھے، وہ علمی اور عملی اعتبار سے اورقسم کا تھا، اوریہاں سے بالکل الگ کوئی اورہی معاملہ تھا۔ان دونوں حلقوں میں کوئی مماثلت نہ تھی۔ ابتدائی اجلاس میں مولاناحکیم عبداللہ روڑی والے بھی شریک تھے اور جماعت کے رکن بنے تھے لیکن وہ 1950ءمیں مستعفی ہوئے تھے۔تاسیسی اجلاس میں یہ فقیر بھی شامل تھا اور ہمدرد بنا تھا، یعنی جو حضرات اس میں شامل ہورہے تھے ان کے علم وفضل اور فہم وفراست کی وجہ سے اس گنہگار کو ان سے ہمدردی تھی انہی دنوں مولانا عبدالغفار حسن نے بذریعہ درخواست شمولیت فرمائی، اور ماشاء اللہ وہ بڑے باہمت ثابت ہوئے جنھوں نے مسلسل سولہ سترہ سال اس جماعت کی رکنیت اور امارت کا بوجھ اٹھائے رکھا جوان کے نزدیک نہ جمہوری تھی، نہ اسلامی۔ میں نے ماہنامہ”شہادت“ میں آج سے تیرہ سال قبل کا حضرت مولانا عبدالغفار حسن کا پورا انٹرویو پڑھا اور بڑے غور سے پڑھا۔لیکن یہ فقیر یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مولانا ممدوح نے اتنا عرصہ جماعت میں رہ کرکیا علمی اورتدریسی خدمات سرانجام دیں؟ان کا اصلی کام تدریس تھا، جماعت اسلامی میں ان کی تدریسی خدمت وہی ہیں جو 1948ء میں تین یا چار مہینے سیالکوٹ میں انجام دی یعنی دو مدرس تین آدمیوں کو قدیم وجدید تعلیم سے آراستہ فرماتے رہے جس کا نام تربیت گاہ تھا اور مولانا کے بقول لوگ اس کا م کو سفید ہاتھی قراردیتے تھے۔
Flag Counter