یہ بہت بڑی ناانصافی تھی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، اس سے بھی آگے بڑھی۔مولانا مودودی نے جائزہ کمیٹی کے چاروں ارکان کو نوٹس بھیجے کہ آپ لوگ ایک مہینے کے اندر اندر مجلس شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں، ورنہ میں آپ لوگوں کو آپ کے حلقے میں لے کر جاؤں گا اور جن لوگوں نے شوریٰ کے لیے آپ کا انتخاب کیا ہے، ان سے جا کر کہوں گا کہ اگر مجھے جماعت کا امیر رکھنا ہے تو ان کو واپس لو اور ان کی انتخابی حیثیت ختم کرو۔ مولانا مودودی کی یہ بہت بڑی دھمکی تھی۔ مولانا عبدالغفار حسن کہتے ہیں”مولانا مودودی کی دھمکی کون برداشت کر سکتا تھا، وہ تو جماعت کے بانی تھے۔آخر ہم اس ناانصافی کی بناءپر نہ صرف مجلس شوریٰ بلکہ جماعت ہی سے مستعفی ہو گئے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی جمہوری جماعت ہے، جمہور یت اس میں کہاں ہے۔ جماعت میں نہ جمہوریت ہے، نہ انصاف ہے۔“ مولانا عبدالغفارحسن نے اپنے اس انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے ناقدین پر چار الزامات عائد کیے۔ 1۔۔۔۔آپ لوگوں نے ان کے خلاف سازش کی۔ 2۔آپ لوگوں نے جماعت کے اندر دھڑے بندی پیدا کی اور انتشار پھیلایا۔ 3۔آپ لوگ ہوس اقتدار میں مبتلا ہیں۔ 4۔۔۔۔آپ لوگ انھیں امارات سے الگ کر کے مولانا امین احسن اصلاحی کو جماعت کا امیر بنانا چاہتے ہیں۔ انٹرویو میں اور بھی بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں جو ماہنامہ”شہادت“کے قارئین کرام کے مطالعے میں آئیں، جن کا خلاصہ یہ ہے۔ ©۔۔۔مولانا مودودی نے اپنے آپ پر تنقید برداشت نہیں کی۔ ©۔۔۔جن مقاصد کے لیے جماعت اسلامی قائم کی گئی تھی، مولانا مودودی نے ان مقاصد سے انحراف کیا۔ ©۔۔۔جماعت میں نہ جمہوریت تھی، نہ انصاف۔ ©۔۔۔وہ چار رکنی جائزہ کمیٹی جو خود مولانا نے اور جماعت کی مجلس شوریٰ نے بنائی تھی، اس کی رپورٹ سامنے آئی تو مولانا نے اسے سراسر غلط قراردیا اور کمیٹی کے ارکان پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا۔ ©۔۔۔مولانا نے اپنے ناقدین کی رکنیت بھی ختم کردی اور انھیں ملازمت سے بھی برطرف کردیا۔ |