جن میں مولانا عبدالغفار حسن بھی شامل تھے۔اختلاف کی وجوہ میں سے مولانا عبدالغفار حسن کے بقول ایک وجہ یہ تھی کہ جماعت کے اندر انصاف نہیں رہا تھا۔ ارکان کے ساتھ بے انصافی ہونے لگی تھی۔ بے انصافی کے کئی واقعات کا مشاہدہ کیا گیا۔1954ءیا1955ءمیں ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی گئی، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ بعض ارکانِ جماعت میں بے یقینی پائی جاتی ہے اس کی کیا وجہ ہے۔جائزہ کمیٹی کے چارارکان بنائے گئے تھے، عبدالجبار غازی، سلطان احمد، حکیم عبدالرحیم اشرف اور مولانا عبدالغفارحسن ان حضرات نے پورےپاکستان کا دورہ کر کے تقریباًدو سوارکان سے انٹرویو لیے اور ان کی تحریری شکایات وصول کیں۔پھر دسمبر1956ءکو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں اس دورے کی رودادپیش کی گئی۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس پندرہ دسمبر سے تیس یا اکتیس دسمبر تک پندرہ دن جاری رہا۔اس میں مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف نے نوگھنٹے تقریر کی اور مولانا عبدالغفار حسن نے دو گھنٹے تقریر فرمائی، اور بھی متعدد حضرات نے تقریریں کیں۔ اجلاس میں”تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ جماعت اپنی سابقہ پالیسی سے انحراف کر رہی ہے۔ مولانا مودودی اور دیگر ذمہ داروں پر شدید تنقید ہوئی۔“ مولانا عبدالغفارحسن فرماتے ہیں کہ”مولانا مودودی پر زیادہ الزام جماعت کی پالیسی سے انحراف کا تھا، کچھ اور بھی اعتراضات تھے۔“مقررین نے”کھل کر اور بے پروا ہو کر تنقید کی۔“مولانا بالعموم تنقید کو پسند کرتے تھے۔مولانا عبدالغفارحسن فرماتے ہیں۔”لیکن انھوں نے اس تنقید کو محسوس کیا۔چنانچہ نعیم صدیقی اور جماعت کی”مرکزی بیوروکریسی“نے(ناقدین کی) مخالفت شروع کردی اور یہ پراپیگنڈاہونے لگا کہ ان لوگوں نے مولانا کو زچ کیا ہے، جماعت کے اندر دھڑےبندی کی ہے، اس طرح جائزہ کمیٹی کو بدنام کیا گیا۔“ اس زمانے میں جماعت اسلامی کا اخبارروزنامہ ”تسنیم “جاری تھا، اس کے مدیر ارشاد احمد حقانی تھے۔مصطفیٰ صادق کا تعلق بھی اسی اخبار سے تھا۔ یہ لوگ مولانا عبدالغفار حسن اور ان کے ساتھیوں کے حامی تھے۔ چنانچہ اخبار نے ان کی حمایت کی۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے بہت سے ارکان اور بعض دیگر حضرات نے ان کی شدید مخالفت کی اور مولانا مودودی کی حمایت کو اپنا فرض قراردیا۔ مولانا عبدالغفار حسن مولانا مودودی کے حامیوں کو ” جماعت اسلامی کی بیورکریسی “سے تعبیر فرماتے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ جن لوگوں نے مولانا مودودی پر تنقید کی تھی۔انھیں مجلس شوریٰ کی رکنیت اور ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ لیکن جن لوگوں نے مولانا مودودی کی حمایت کی تھی اور مولانا عبدالغفار حسن اور ان کے ہم نواؤں کے خلاف بلا جواز پراپیگنڈاکر رہے تھے۔ انھیں کچھ نہیں کہا گیا۔ |