شرکت کے لیے مولانا وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ مالیر کوٹلہ میں بھی ان کی کوشش سے جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آگیا تھا اور وہ اس کے امیر تھے۔اس حیثیت سے مالیر کوٹلہ شہر اور اس کے گردنواح میں جماعت کی تبلیغ و ترویج کے لیے انھوں نے بے حد تگ و تازکی۔ یکم مئی 1948ءکو مولانا عبدالغفار حسن پاکستان آگئے۔جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے تو وہ رکن تھے ہی ، اس کے علاوہ مولانا مودودی نے ان پر بعض اور ذمے داریاں ڈال دیں، جن میں ایک ذمے داری تدریس کی تھی۔ اس کی تفصیل مولانا ممدوح یہ بیان فرماتے ہیں کہ اس وقت جماعت اسلامی نے کو ہاٹی بازار راولپنڈی میں ایک تین منزلہ عمارت ساٹھ روپے ماہانہ کرائے پر لی اور اس میں تربیت گا ہ قائم کی۔ منصوبہ یہ تھا کہ یہاں جدید و قدیم علوم کی ایک مثالی درس گاہ قائم کی جائے۔ جدید علوم کے فارغ التحصیل طلبا کو قدیم علوم پڑھائے جائیں اور قدیم علوم کے حامل افراد کو جدید علوم سے آراستہ کیا جائے۔ عبدالجبارغازی جدید علوم اور مولانا عبدالغفار حسن قدیم علوم پڑھاتے تھے۔ مولانا تین مہینے راولپنڈی کی اس تربیت گاہ میں پڑھاتے رہے، اور اس اثنا میں طالب عالم صرف تین آئے۔ چوہدری رحمت علی، عرفان غازی اور محمد شریف کیانی۔ طلبا سے زیادہ دوسرا سٹاف تھا جو پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ دو استاد، ایک محاسب، ایک باورچی اور ایک چوکیدار۔ اتنا زیادہ خرچ اور طالب علم صرف تین۔ بقول مولانا عبدالغفار حسن لوگ اس کام کو ”سفید ہاتھی“قراردیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سلسلہ کامیاب نہیں ہو گا۔ پھر 3۔اکتوبر1948ءکو جب مولانا مودودی نے کشمیر کی جنگ کو غیر اسلامی قراردیا اور فرمایا کہ یہ جہاد نہیں ہے تو انھیں حکومت پاکستان نے گرفتارکر لیا اور مولانا عبدالغفار حسن کو جماعت اسلامی کا قائم مقام امیر بنا دیا گیا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ امیرجماعت اسلامی کے نزدیک اس وقت کشمیرکی جنگ جہاد نہیں تھی۔ اس کے بعد جماعت نے اسے جہاد قراردے دیا۔ کچھ عرصہ جہاد رہا، اب اس میں کچھ کمی آگئی ہے۔ آگے معلوم نہیں ان کا سیاسی اسلام کیا رنگ بدلتا ہے۔ سیاسی اسلام کے مسائل میں اس قسم کا ردو بدل ہوتا رہتا ہے۔ اسلام اور سیاست جماعت اسلامی کے نزدیک ایک ہیں، ظاہر ہے جیسے سیاست بدلے گی، اسی طرح اسلام بھی بدلے گا۔ مولانا عبدالغفار حسن کو مختلف اوقات میں تین دفعہ جماعت اسلامی کا قائم مقام امیر مقرر کیا گیا۔ مولانا مودود ی ان پر بہت اعتماد فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ انھیں حلقہ سیا لکوٹ کا امیر بنا کر سیالکوٹ بھیجا، اس وقت پانچ ضلعے ان کے ماتحت کردیےگئے تھے، جن میں سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات کے اضلاع شامل تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ مولانا مودودی سے جماعت کے بعض سرکردہ ارکان کو اختلاف پیدا ہو گیا، |