کرتے تو ان کا انداز بیان ایسا رقت آمیز ہوتا کہ لوگوں کی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں، بالخصوص جب مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی کا تذکرہ فرماتے تو ان کی آواز بھرا جاتی۔[1] جماعت اسلامی سے وابستگی اور علیحدگی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مولانا عبدالغفار حسن سولہ سترہ سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہے۔ یعنی انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جس میں تقریباً پوری جوانی شامل ہے، جماعت اسلامی کی نذر کردیا۔ اب آئیے دیکھتے ہیں اس طویل عرصے میں جماعت اسلامی کی انھوں نے کیا خدمات انجام دیں اور اس سے کب الگ ہوئے اور کیوں الگ ہوئے۔؟ آج سے تیرہ سال پہلے مولانا ممدوح کا ایک انٹرویو اسلام آباد کے ماہنامہ”شہادت“(دسمبر1996ء) میں شائع ہوا تھا جو اس کے چیف ایڈیٹر جناب خالد سیال نے ان سے لیاتھا اس میں مولانا نے جماعت اسلامی میں اپنی شمولیت اور علیحدگی کا تذکرہ خاصی تفصیل سے کیا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں اسی انٹرویو کی روشنی میں اختصار کے ساتھ ان کی جماعت اسلامی سے وابستگی، اس کی خدمت اور اس سے علیحدگی کا تذکرہ کیا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔ تکمیل تعلیم کے بعد مولانا نے جماعت اہل حدیث کی ایک درس گاہ مدرسہ رحمانیہ بنارس (یوپی)میں سلسلہ تدریس کا آغاز کیا۔ سات سال وہاں قرآن و حدیث اور علوم عربیہ کی تعلیم دیتے رہے۔ اسی زمانے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے ماہنامہ”ترجمان القرآن “اور ان کی بعض کتابیں پڑھ کر ان کے دینی اور اسلامی افکار سے متاثر ہوئے۔(اس سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد سے متاثر تھے۔)اگست 1941ءمیں لاہور میں جماعت اسلامی کی تاسیس ہوئی، اس کے تاسیسی اجلاس میں وہ شامل نہیں تھے۔ اس کی تاسیس کے بعد انھوں نے مولانا مودود ی کو خط لکھا کہ انھیں جماعت میں شامل کر لیا جائے۔اس طرح وہ اس درخواستی خط کی بنا پر ”جماعت “کے تاسیسی اجلاس میں شامل ہو گئے۔“ اگست 1942ءمیں مولانا عبدالغفارحسن بنارس سے مالیر کوٹلہ (مشرقی پنجاب ) چلے گئے۔ اس وقت وہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے اور جماعت کا مرکزی دفتر دارالسلام (پٹھان کوٹ ضلع گورداس پور) میں تھا اور اس کی مجلس شوریٰ کے اجلاس وہیں ہوتے تھے، جن میں |